google.com, pub-9673306505872210, DIRECT, f08c47fec0942fa0
23

“ادھورے خواب، مکمل حق”

google.com, pub-9673306505872210, DIRECT, f08c47fec0942fa0

“ادھورے خواب، مکمل حق”

ہمارے اخبار کے صفحات پر روزانہ نت نئی خبریں چھپتی ہیں—کبھی سیاسی ہلچل، کبھی معاشی بحران، کبھی کسی وزیر کی پریس کانفرنس۔ مگر ان خبروں کے شور میں وہ دبی ہوئی صدائیں سنائی نہیں دیتیں جو گلی کے کونے پر بیٹھے کسی یتیم بچے کے دل سے اُٹھتی ہیں، یا کسی بیوہ ماں کے گھر کی خاموش دیواروں سے ٹکراتی ہیں۔ یہ وہ صدا ہے جو انصاف، کفالت اور احترام مانگتی ہے۔

پاکستانی عورت آج بھی اپنے حصے کی روشنی کے لیے اندھیروں سے لڑ رہی ہے۔ وہ ماں جو شوہر کے مرنے کے بعد اپنے بچوں کے لیے ماچس بیچتی ہے، وہ بیٹی جس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا تو تعلیم کے دروازے بند ہو گئے، اور وہ بوڑھی عورت جو بیٹے کی وفات کے بعد پنشن دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک گئی — یہ سب اس معاشرے کا وہ چہرہ ہیں جسے ہم اکثر دیکھنا نہیں چاہتے۔

حکومت نے یقیناً عوامی فلاح کے لیے متعدد کفالت پروگرام شروع کیے، اور یہ قدم قابلِ ستائش ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ ان پروگراموں کے ثمرات ابھی بھی ان دروازوں تک نہیں پہنچ پائے جہاں اصل ضرورت ہے۔ شہر کے خوش نصیب طبقات کو تو ان اسکیموں کی اطلاع سوشل میڈیا سے بھی مل جاتی ہے، مگر دیہات کی وہ عورت جو ناخواندہ ہے، جو موبائل فون تک رسائی نہیں رکھتی، اسے اپنے حصے کی مدد تب پتہ چلتی ہے جب سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

کفالت کے مراکز پر لمبی قطاروں میں کھڑی عورتیں، اپنے معصوم بچوں کو گود میں لیے، محض چند ہزار روپے کی امید میں گھنٹوں دھوپ میں کھڑی رہتی ہیں۔ کئی بار وہ گھر واپس جاتی ہیں تو ہاتھ خالی ہوتے ہیں، کبھی شناختی کارڈ کی تصدیق کا مسئلہ، کبھی ڈیٹا اپ ڈیٹ نہ ہونے کا بہانہ۔ افسوس یہ ہے کہ جس عورت کے آنسوؤں سے یہ ملک کے بوسیدہ نظام کی دیواریں نم ہیں، اُسی کے آنسو کسی فائل کے نیچے دَب جاتے ہیں۔

اس وقت ملک میں لاکھوں بیوائیں اور یتیم بچیاں ایسی ہیں جن کے پاس نہ تعلیم ہے، نہ روزگار، نہ سر پر باپ یا شوہر کا سایہ۔ حکومت نے کفالت کے نام پر جو اسکیمیں متعارف کروائیں، وہ اگر مکمل شفافیت سے چلیں تو یقیناً زندگی بدل سکتی ہے۔ مگر جب امدادی رقوم کے اجراء میں سیاسی اثرات، انتظامی سستی، اور بدعنوانی در آ جائے تو پھر وہی لوگ محروم رہ جاتے ہیں جن کے لیے یہ پروگرام بنائے گئے تھے۔

اصل ضرورت یہ ہے کہ ریاست ان خواتین تک خود پہنچے۔ جس طرح ترقی یافتہ ممالک میں سوشل ویلفیئر کے نمائندے گھروں میں جا کر حالات کا جائزہ لیتے ہیں، ویسا ہی نظام یہاں بھی قائم کیا جائے۔ بیواؤں کے لیے باعزت روزگار کے منصوبے، یتیم بچیوں کے لیے تعلیم اور تربیت کے ادارے، اور بزرگ خواتین کے لیے ماہانہ وظیفے — یہ سب کسی رحم یا احسان کا تقاضا نہیں، بلکہ آئینی حق ہیں۔

ہماری ماضی کی قیادت نے عورت کو بااختیار بنانے کی بات کی تھی۔ اُنہوں نے یہ یقین دلایا تھا کہ عورت کو سماجی اور معاشی طور پر مضبوط بنائے بغیر قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ آج ضرورت ہے کہ وہی خواب پھر سے یاد کیے جائیں۔ تعلیم، روزگار، اور کفالت — یہ تین ستون اگر مضبوط ہوں تو کوئی عورت سڑک پر ہاتھ نہیں پھیلائے گی۔

وقت آ گیا ہے کہ موجودہ حکومت یہ سمجھے کہ امدادی چیک سے زیادہ قیمتی چیز احساسِ تحفظ ہے۔ وہ عورت جو اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں لا سکتی، اسے صرف پیسہ نہیں، یقین چاہیے کہ ریاست اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ جس دن یہ یقین بحال ہو گیا، اُس دن پاکستان کا چہرہ واقعی روشن ہو جائے گا۔

اب یہ فیصلہ حکومت کے ہاتھ میں ہے — وہ چاہے تو ان بیواؤں اور یتیم بچیوں کے لیے نئے راستے کھول سکتی ہے، یا چاہے تو انہیں اسی اندھیرے میں چھوڑ دے جہاں وہ برسوں سے زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ مگر یاد رہے، جب ایک عورت کا ہاتھ خالی ہوتا ہے تو صرف ایک گھر نہیں، پورا معاشرہ خالی ہو جاتا ہے۔

یہ کالم کسی سے شکایت نہیں، ایک التجا ہے — انصاف، شفافیت اور حق کے لیے۔ تاکہ آنے والی صبح میں کوئی بیوہ اپنے بچوں سے یہ نہ کہے کہ “بیٹا، آج بھی حکومت کی قسط نہیں ملی…” بلکہ فخر سے کہے، “بیٹا، یہ ملک ہمارا ہے، اور یہ ملک ہمیں بھولا نہیں ہے۔”

@@@@@@@@@@@@@@

google.com, pub-9673306505872210, DIRECT, f08c47fec0942fa0

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں