📿 جب فرض نماز کی اقامت شروع ہو جائے تو نوافل یا سنتیں پڑھنا جائز نہیں
منگل 04 نومبر 2025
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
جب فرض نماز کی اقامت شروع ہو جائے تو نوافل یا سنتیں پڑھنا جائز نہیں۔
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ فجر کی جماعت ہو رہی ہوتی ہے اور لوگ گھر سے لیٹ آتے ہیں اور فجر سنتیں پڑھنے لگ جاتے ہیں اور یہ عمل خلافت سنت ہے۔
🕌 دلیل نمبر 1:
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ
“جب فرض نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو فرض کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔”
📖 (مسند أحمد: 331/2، صحیح مسلم: 710)
یہ حدیث مرفوعاً و موقوفاً دونوں طرح سے روایت ہوئی ہے،
اور اس میں صریح ممانعت ہے کہ اقامت کے بعد فجر کی سنت یا کوئی نفل نماز ادا نہ کی جائے۔
📚 (1) الإمام الترمذي رحمه الله:
والعمل على ھذا عند بعض أھل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم و غيرھم إذا أقيمت الصلاة أن لا يصلّي الرجل إلّا المكتوبة، و به يقول سفيان الثوريّ و ابن المبارك والشافعيّ و أحمد و إسحق.
📘 (سنن الترمذي، تحت الحديث: 421)
“بعض صحابہ اور دیگر اہلِ علم کا یہی عمل ہے کہ جب اقامت کہی جائے تو آدمی صرف فرضی نماز پڑھے۔
امام ثوری، ابن المبارک، شافعی، احمد، اور اسحاق رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔”
📚 (2) الإمام ابن خزيمة رحمه الله:
باب النھي عن أن يصلّي ركعتي الفجر بعد الإقامة ضدّ قول من زعم أنّھما تصليان و الإمام يصلّي الفريضة.
📘 (صحيح ابن خزيمة: 169/2، ح 1123)
“فجر کی دو رکعت سنتیں اقامت کے بعد ادا کرنا منع ہیں، برخلاف اس کے جو کہتا ہے کہ امام فرض نماز پڑھا رہا ہو تو یہ رکعتیں ادا کی جا سکتی ہیں۔”
📚 (3) الإمام ابن حبان رحمه الله:
ذكر البيانّ بأنّ حكم صلاة الفجر و حكم غيرھا من الصلوات فى ھذا الزجر سواء.
📘 (صحيح ابن حبان، تحت الحديث: 2193)
“اس ممانعت میں فجر کی نماز اور دیگر نمازوں کا حکم ایک ہی ہے۔”
📚 (4) الحافظ ابن عبدالبر رحمه الله:
والحجة عند التنازع السنّة، فمن أوّل بھا فقد أفلح، ومن استعملھا فقد نجا.
📘 (التمهيد لابن عبدالبر: 69/22)
“اختلاف کے وقت دلیل سنتِ نبوی ﷺ ہے، جو اسے اپنائے وہ کامیاب اور نجات یافتہ ہے۔”
📚 (5) الحافظ الخطابي رحمه الله:
في ھذا بيان أنه ممنوع من ركعتي الفجر ومن غيرھا من الصلوات إلّا المكتوبة.
📘 (معالم السنن للخطابي: 274/1)
“یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اقامت کے بعد فجر کی دو رکعتیں یا کوئی بھی نفل نماز جائز نہیں۔”
📚 (6) الحافظ ابن الجوزي رحمه الله:
وهذا لأنه قد صار الحكم لها، ولا ينبغي أن يتشاغل بالأنقص مع حضور الأكمل، وقد قال أبو حنيفة: من كان خارج المسجد ولم يخش فوات الركوع فى الركعة الثانية من الفجر صلى ركعتين ثم دخل، والحديث يرد هذا.
📘 (كشف المشكل من حديث الصحيحين لابن الجوزي: 1022/1)
“اقامت کے بعد وقت فرضی نماز کا ہو جاتا ہے،
کامل عبادت (فرض) کے وقت ناقص (نفل) میں مشغول ہونا درست نہیں۔”
📚 (7) الحافظ النووي رحمه الله:
فيھا النھي الصريح عن افتتاح نافلة بعد إقامة الصلاة، سواء كانت راتبة كسنّة الصبح والظھر والعصر أو غيرھا، وھذا مذھب الشافعيّ والجمھور.
📘 (شرح صحيح مسلم للنووي: 247/1)
“یہ حدیث اقامت کے بعد نفل نماز شروع کرنے سے صاف منع کرتی ہے،
خواہ وہ سنن راتبہ ہو یا غیر راتبہ، یہی مذہب امام شافعیؒ اور جمہور کا ہے۔”
📚 (8) ابن القيم رحمه الله:
ردّت السنّة الصحيحة الصريحة أنَه لا يجوز التنفل إذا أقيمت صلاة الفرض كما فى صحيح مسلم.
📘 (إعلام الموقعين لابن القيم: 375/2)
“صحیح سنت کے مطابق اقامت کے بعد نفل نماز جائز نہیں۔”
📚 (9) الحافظ ابن حجر رحمه الله:
فيه منع التنفل بعد الشروع فى إقامة الصلاة سواء كانت راتبة أم لا.
📘 (فتح الباري: 368/3)
“اقامت کے آغاز کے بعد کسی نفل نماز کا آغاز ممنوع ہے،
چاہے وہ راتبہ ہو یا عام نفل۔”
📚 (10) الشيخ عبدالرحمن المباركفوري رحمه الله:
والحديث يدلّ عليٰ أنّه لا يجوز الشروع فى النافلة عند إقامة الصلاة من غير فرق بين ركعتي الفجر و غيرھا.
📘 (تحفة الأحوذي: 323/1)
“یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اقامت کے وقت نفل نماز شروع کرنا جائز نہیں،
فجر کی سنت اور دیگر نوافل میں کوئی فرق نہیں۔”
🕋 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:
إذا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلَاةَ إِلَّا التی أُقِيمَتْ
“جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو کوئی نماز نہیں ہوتی سوائے اس کے جس کے لیے اقامت دی گئی ہو۔”
📖 (المعجم الأوسط للطبراني: 8654، شرح معاني الآثار: 371/1، وسندہ حسن)