تحریر: صائمہ عروج
پاکستانی ریلوے
تو جو میرے سنگ چلے
دھوپ ہے مجھ کو راس پیا
من کو تیری آس پیا
تو آ جا میرے پاس پیا
پاکستان ریلویز ،کا جال تمام ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ مختلف روٹس کی مختلف ریلوے لائنیں ہیں۔ تقریباً سبھی ریلوے لائن براڈ گیج ہیں۔ پاکستان ریلوے کا نیٹ ورک مین لائنوں اور برانچ لائنوں میں تقسیم ہے۔ پاکستان ریلویز کا صدر دفتر لاہور میں ہے اور یہ پورے پاکستان میں 7,791 کلومیٹر (4,650 میل) آپریشنل ٹریک کا مالک ہے۔ پاکستان ریلوے کا نیٹ ورک 7,791 روٹ کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ جس میں 7,346 کلومیٹر براڈ گیج اور 445 کلومیٹر میٹر گیج ہے اور 1,043 کلومیٹرڈبل ٹریک اور 285 کلومیٹر برقی حصے پر مشتمل ہے۔ پاکستان ریلوے کے 625 فعال اسٹیشن ہیں۔ جو مال بردار اور مسافر دونوں کی خدمات پیش کرتا ہے۔ پاکستان ریلویز کی ٹرینوں کی رفتار زیادہ سے زیادہ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
پاکستان ریلویز جس کا سابقہ نام 1947ء سے فروری 1961ء تک شمال مغربی ریلوے اور فروری 1961ء سے مئی 1974ء تک پاکستان مغربی ریلوے تھا، حکومت پاکستان کا ایک محکمہ ہے جو پاکستان میں ریلوے خدمات فراہم کرتا ہے۔ اس کا صدر دفتر لاہور میں ہے اور یہ وزارت ریلوے کے تحت کام کرتا ہے۔
موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861ء میں ہوا جب کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 24 اپریل 1865ء کو لاہور – ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 6 اکتوبر 1876ء کو دریائے راوی, دریائے چناب اور دریائے جہلم پر پلوں کی تعمیر مکمل ہو گئی اور لاہور – جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 جولائی 1878ء کو لودهراں – پنوعاقل 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 27 اکتوبر 1878ء کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ رک سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام جنوری 1880ء میں مکمل ہوا۔ اکتوبر 1880ء میں جہلم – راولپنڈی 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 1 جنوری 1881ء کو راولپنڈی – اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 مئی 1882ء کو خیرآباد کنڈ – پشاور 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہو گئی۔ 31 مئی 1883ء کو دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور – راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 1885ء تک موجودہ پاکستان میں چار ریلوے کمپنیاں سندھ ریلوے، انڈین فلوٹیلا ریلوے، پنجاب ریلوے اور دہلی ریلوے کام کرتیں تھیں۔ 1885ء میں انڈین حکومت نے تمام ریلوے کمپنیاں خرید لیں اور 1886ء میں نارتھ ويسٹرن اسٹیٹ ریلوے کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں نارتھ ويسٹرن ریلوے کر دیا گیا۔
مارچ 1887ء کو سبی – کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ 25 مارچ 1889ء کو روہڑی اور سکھر کے درمیان لینسڈاؤن پل کا افتتاح ہوا۔ اس پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی – پشاور سے بزریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 15 نومبر 1896ء کو روہڑی – حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 25 مئی 1900ء کو کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری – حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی – پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔ نارتھ ويسٹرن ریلوے کو فروری 1961ء میں پاکستان ويسٹرن ریلوے اور مئی 1974ء میں پاکستان ریلویزمیں تبدیل کر دیا گیا۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
شجر ہائے ہراز سایہ دار راہ میں ہیں
تاریخ
سابقہ نام فریئر اسٹریٹ اسٹیشن
کراچی ریلوےاسٹیشن
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا مرکزی ریلوے اسٹیشن ہے۔ اس اسٹیشن کی تعمیر کا آغاز برطانوی دور میں 1896ء میں شروع ہوا اور 1898ء میں 80,000 روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ ابتدا میں یہ فریر اسٹریٹ ریلوے اسٹیشن کہلاتا تھا۔ اس ریلوے اسٹیشن پر ہسپتال، مسجد اور تھانے سمیت مختلف سہولیات موجود ہیں۔ یہ ڈاکٹر داود پوتا روڈ، صدر کے قریب واقع ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی چھاؤنی ریلوے اسٹیشن کی عمارت کو محفوظ ورثہ قرار دے دیا ہے۔
یہاں سے ریل گاڑیاں پاکستان کے مختلف شہروں کو جاتی ہیں جن میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، پشاور، گوجرانوالہ، سرگودھا، گجرات، ملتان، کوئٹہ، بہاولپور، رحیم یار خان، جھنگ، حیدرآباد، نوابشاہ، سکھر، جہلم، ہری پور، نوشہرہ، سبی، اٹک، لاڑکانہ، کوہاٹ، خانیوال، میانوالی، کوٹری، ڈیرہ غازی خان، بھکر، گوجرخان، شیخوپورہ، سیالکوٹ، نارووال، شورکوٹ، ساہیوال، اوکاڑہ، سکھر، منڈی بہاؤ الدین، بدین، میر پور خاص، دادو اور جیکب آباد شامل ہیں۔ کراچی ریلوے اسٹیشن پر ہر ٹرین آدھے گھنٹے کے لیے رکتی ہے۔
تاریخ
کراچی کا یہ اہم ریلوے اسٹیشن، کراچی کینٹ اور کراچی چھاؤنی کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ یہ صدر کے علاقے کی مشہور سڑک داؤد پوتا روڈ پر واقع ہے۔ اسے ماضی میں فریئر اسٹریٹ ریلوے اسٹیشن بھی کہا جاتا تھا۔ اس ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا آغاز 1896ء میں ہوا تھا اور یہ کام 1898ء میں مکمل ہوا۔
ماہرینِ تعمیرات کے مطابق کینٹ اسٹیشن کی عمارت رومن اور اطالوی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے۔ اس کا مرکزی دروازہ رومن گوئتھک طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے جب کہ ستونوں میں اطالوی طرزِ تعمیر کی جھلک ملتی ہے۔ اس کے پلیٹ فارموں کی تعداد 5 ہے، جب کہ ٹریک کی تعداد 8 ہے۔
کراچی کینٹ کا ریلوے اسٹیشن مسافر ٹرینوں کی آمد ورفت کے حوالے سے مصروف اسٹیشن ہے جہاں سے مختلف ٹرینیں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتی ہیں۔
سہولیات
کراچی چھاؤنی ریلوے اسٹیشن میں تقریباً تمام سہولیات موجود ہیں۔ یہاں گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے ایک بڑی کار پارگنگ موجود ہے۔ ٹرینوں میں جگہ محفوظ کرنے کے لیے ایڈوانس اور کرنٹ ریزرویشن کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ تمام پلیٹ فارموں میں کھانے پینے کے اسٹول ہیں۔ پلیٹ فارم ایک پر کتابوں کا اسٹول پیزا ہٹ اور رحمت شریں طعام خانوں کی شاخیں واقع ہیں۔
ریلوے اسٹیشن کوڈ
پاکستان ریلویز کی سرکاری ویب گاہ کے مطابق کراچی چھاؤنی ریلوے اسٹیشن کا کوڈ KC ہے۔
رابطے کی معلومات
کراچی ریلوے اسٹیشن کا رابطہ نمبر ‘ ہے۔ مزید معلومات کے لیے کراچی ریلوے اسٹیشن کے بکنگ آفس جا سکتے ہیں یا 117 پر پاکستان ریلوے کے نمائندے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
ذرائع نقل و حمل
اسٹیشن کے بالکل باہر بس اسٹاپ اور ٹیکسی اسٹینڈ ہے، جس سے مسافروں کے لیے اسٹیشن آنے اور جانے میں آسانی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ گرین لائن بس کے لیے قریب ترین اسٹیشن تھوڑی ہی دوری پر ہے۔ اور کراچی سرکلر ریلوے کا بھی اسٹیشن نزدیک ہے۔