جب ملبے میں اتری انسانیت
زمین کا سینہ لرزا، پہاڑوں نے چیخ ماری، اور افغانستان کے کئی شہر پلک جھپکتے ملبے میں بدل گئے۔ چھ اعشاریہ تین شدت کا زلزلہ چند لمحوں میں ہزاروں خواب نگل گیا۔ لیکن انہی لمحوں میں ایک اور منظر بھی ابھرا — پاکستان کا انسانیت سے جڑا وہ چہرہ، جو ہر آزمائش میں امید بن کر سامنے آتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے جیسے ہی زلزلے کی خبر سنی، فوراً امدادی کارروائیاں شروع کرنے کا حکم دیا۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر این ڈی ایم اے متحرک ہوئی، پاک فوج کے ہیلی کاپٹر روانہ کیے گئے، اور سرحد پار بھائیوں کے لیے خوراک، کمبل، اور طبی امداد کا قافلہ تیار ہوا۔
یہ وہی لمحہ تھا جب سیاست، اختلاف، اور سفارت سب پیچھے رہ گئے — آگے بڑھا تو صرف انسان۔ حکومتِ پاکستان نے جو اقدام اٹھایا، وہ صرف ایک انسانی فریضہ نہیں بلکہ اخلاقی برتری کا ثبوت بھی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان نے وہی کردار ادا کیا جو ایک ذمے دار ریاست کو زیب دیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی میڈیا، جو اکثر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، آج اسی ملک کے جذبۂ انسانیت کو خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے۔ کابل کے ملبے میں جب امدادی کارکنوں نے پاکستانی پرچم کے ساتھ پہلا خیمہ نصب کیا، تو یہ منظر صرف مدد کا نہیں، ایک امید کا اعلان تھا۔ پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ہم صرف جغرافیے کے ہمسایہ نہیں بلکہ دلوں کے رشتے سے بندھے ہیں۔
کچھ ناقدین نے اسے سفارتی نمائش قرار دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی “نمائش” قوموں کو عظیم بناتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے نہ صرف اپنے ہمسایہ ملک کی مدد کی بلکہ یہ پیغام دیا کہ انسانیت ہماری اولین خارجہ پالیسی ہے۔ یہی پالیسی وہ نرم طاقت ہے جو تعلقات کی گرہیں کھول سکتی ہے۔
آج جب دنیا بحرانوں، جنگوں اور تعصبات میں بٹی ہوئی ہے، پاکستان کا یہ قدم امید کی کرن ہے۔ زلزلے کے ملبے سے اگر کچھ اُبھر رہا ہے، تو وہ صرف اینٹ اور پتھر نہیں بلکہ پاکستان کی نئی سفارتی پہچان ہے — ایک ایسا ملک جو دکھ بانٹتا ہے، درد سمیٹتا ہے، اور ہر سانحے میں انسانیت کا علم بلند کرتا ہے۔
زمین کانپی، مگر انسانیت جاگ اٹھی — اور اس جاگتی انسانیت کا مرکز آج پاکستان ہے۔
@@@@@@@@@@@@@@@@