خدارا اپنے بچوں کو وقت دیجیے
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
ایک عام انسان کی اوسط زندگی ہمارے ملک کی بود و باش اور آب و ہوا کے مطابق تقریباً ساٹھ سے پینسٹھ سال ہے، کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے ، کسی بد بخت کو دنیا میں آنکھیں کھولنا ہی نصیب نہیں ہوتا وہ ماں کے پیٹ میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، کوی پیدا ہو نے کے فوراً بعد، کوی بچپن کی چند بہاریں دیکھ کر، کوی نوجوانی تو کوی جوانی میں، کوئی درمیانی عمر میں اور چند ایک ایسے بھی ہیں جو بد ترین عمر تک پہنچ کے دنیا کے تمام ذایقے چکھتے ہیں اور پھر فرشتہ ان تک پہنچ پاتا ہے یعنی اسی، نوے اور سو سال، کوی شک نہیں کہ اس عمر تک پہنچنے والے معدودے چند ہی ہوتے ہیں ورنہ تو ساٹھ سالہ عمر والے کو کہتے ہیں سٹھیا گیا ہے اور ستر سال کی عمر تک پہنچنے والے کو پنجابی میں ستریا بہتریا اور انگریزی میں septoagenarian کہتے ہیں، خیر زندگی کی طرح موت پہ بھی کسی کا کوئی اختیار نہیں، سارے کھیل کی دوڑیں اللہ غفور و رحیم کے ہاتھ میں ہیں تو قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں عمومی طور پر اس ساٹھ سے پینسٹھ سالہ زندگی میں ہی اپنے تمام کام نمٹانے ہوتے ہیں، اپنی تمام ذمہ داریوں سے چاہتے یا نہ چاہتے ہوے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، یعنی پیدا ہونے سے اپنی پڑھائی لکھائی مکمل کر کے برسر روزگار ہونے تک اور پھر شادی سے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت، پڑھائی لکھای اور شادی تک، اب یہ ایک شخص سے دوسرے شخص کے لیے بچوں کی تعداد پہ منحصر ہے کہ کسی شخص کو عطاے ربی سے کتنی اولاد عطا ہوی، کچھ ایسے بدبخت بھی دیکھے جو اولاد کا منہ دیکھنے کی آس میں دنیا ہی سے رخصت ہو گئے، کچھ بچوں کے نرغے میں یوں پھنسے کہ اپنی سانسوں سے بھی گیے اور کچھ باشعور و با تہذیب جوڑے نظام قدرت کو قدرے سمجھ کر ہولے ہولے چلتے رہے، صبر کی مالا کو گلے لگا کر ایک دو بچوں پہ ہی اکتفا کیا اور دل و جان اور وافر مقدار میں اپنے وقت کو بچوں کی تعلیم و تربیت پہ وقف کیا، انھیں مروجہ دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم کے حصول میں بھی مدد کی اور ان کی کٹھنایوں کے دور میں بھی نہ صرف انکا حوصلہ بڑھایا بلکہ ہر طرح کی مالی معاونت بھی کی، بھلے ماں کا زیور بکا یا بابا کی جائیداد، میاں بیوی یک جان اور دو قالب ہو کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کسی آہنی دیوار کی مانند کھڑے ہو گیے، در حقیقت ایسے والدین ہی صحیح معنوں میں والدین کہلانے کے مستحق ہیں، باقی تمام والدین جو اپنی جنسی خواہشات کی آسودگی کے لیے بچوں کی ایک لمبی سپاہ خواہ مخواہ میں تیار کرتے ہیں، بچوں کا نقصان تو کرتے سو کرتے ہیں اپنا نقصان سب سے زیادہ کرتے ہیں.
اب والدین میں بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کی زیادہ تر ذمہ داری ماں کے ناتواں کندھوں پہ بڑے دھڑلے سے ڈال دی جاتی ہے بلکہ عموماً ایسا ہوتا دیکھا گیا ہے کہ اگر ماں کی سوجھ بوجھ اور صبر و استقامت سے اولاد ذہین نکل آئے تو ابا حضور سارا کریڈٹ خود لے کر سر خرو ہو جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے اولاد اور بالخصوص اولاد نرینہ نکمی اور بے کار نکل آے تو والد صاحب گھوم پھر کے اپنی زوجہ محترمہ کی کلاس لینے سے باز نہیں آتے اور لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر اپنے بیوی کو لعن طعن کرتے ہیں کہ کر دیا برباد میری اولاد کو، یہی دنیا کا گورکھ دھندہ تھا اور یہی دنیا کا گورکھ دھندہ ہے، خیر بچوں کی تعلیم و تربیت ایک انتہائی حساس ذمہ داری ہے جو اس ذمہ داری کی اصل روح تک پہنچ گیا اس کی کشتی پار ہے، ضروری ہے کہ بظاہر عاقل و بالغ نظر آنے والا ہر شخص ہی ذہنی طور پر عاقل و بالغ بھی ہو، تاکہ آنے والی نسلوں یعنی بچوں کی حق تلفی نہ ہو، بڑے اور بچے میں واضح فرق ہی بچوں کی نشوونما اور اعلیٰ تعلیم و تربیت کا ضامن ہے.انسان کے بچے کو پیار محبت، لمس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی اپنے بڑوں کے کردار کی مضبوطی واضح طور پر نظر آنی چاہیئے تاکہ وہ اسی کردار کو مشعل راہ بنا کر آگے بڑھ سکیں. گھر کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی بچے کی اولین تربیت گاہ ہوتے ہیں. تو گھر میں والدین اور سکول میں اساتذہ کی شکل میں، بچے کہیں نہ کہیں سے راہنما چن ہی لیتے ہیں اور پھر انھیں مشعل راہ بنا کے منزل کی کٹھنایوں سے نبرد آزما ہو کر منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں، بچوں کے ساتھ جو والدین دوستانہ رویہ رکھتے ہیں وہ بچے زیادہ پراعتماد اور خود انحصار ہوتے ہیں بہ نسبت ان بچوں کے جن پہ سختی کی جاتی ہے،اعتماد نہیں کیا جاتا. سعد شیرازی ایک ڈرا ڈرا سہما سہما سا دس سالہ بچہ تھا جو جوایینٹ فیملی سسٹم میں اپنے والدین کے علاوہ دادا دادی اور چاچا، تایا کی فیممیلیز کے ساتھ رہتا تھا،ارے رہتا کیا تھا بھانت بھانت کی بولیوں اور طرح طرح کے لوگوں کے بیچ میں سینڈوچ بنا ہوا تھا، پس رہا تھا، اس کی شخصیت ان رنگ برنگے، طرح طرح کی ہستیوں کے قول و فعل تضاد کے درمیان پستی ہی جاتی تھی اور کوئی اسے بچانے والا نہ تھا. دادی کہتی سپارہ پڑھنا ہے، دادا کہتے ریاضی کی مشق کر لو، چاچو کی خواہش ہوتی میرے ساتھ کرکٹ کھیل لو، تو چاچا کی پوری پوری خواہش ہوتی کہ سعد کہیں غلطی سے دو لفظ پڑ ھ لکھ کے کہیں زندگی کی دوڑ میں آگے نہ نکل جاے،بچہ تو بچہ ہوتا ہے اسے اپنے بد ذات چاچے کی اس غلیظ حرکت کا اندازہ ہی نہ ہو سکا اور وہ معصوم یہ سمجھتا رہا کہ چاچا اس کے ساتھ مخلص ہے، اس کا دل بہلانے کے لیے اس کے ساتھ کھیلتا ہے، کاش ساری دنیا کے لوگوں کی زبان ایک ہوتی اور لوگ ایک دوسرے کے دل کی زبان سے بھی آگاہ ہو جاتے، عجیب سر پھرے سے لوگ تھے، کہنے کو تو جواینٹ فیملی سسٹم تھا مگر لوگ ساتھ رہتے ہوے بھی ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے سے باز نہ آتے تھے،دادی، چاچی اور تای، ماں کے سامنے تو ماں کی تعریف و توصیف میں لگی رہتیں مگر جونہی ماں، گھر سے کام کے لیے نکل جاتی تو پھر دادی، چاچی اور تای، ماں کے خلاف ایسے ایسے بول بولتیں کہ سعد بیچارے کے کان بھی پگھل جاتے، خیر وہ سوچتا تو مزید الجھ جاتا، اسے یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ٹبر کسی ڈراونے خواب یا کسی بھوت پریت کی طرح محسوس ہوتا، اس کا دل چاہتا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک علیحدہ گھر میں رہے جہاں اس کی ماں کو برا بھلا کہنے والا کوئی نہ ہو، جہاں محبت کے نغمے اور سکھ چین کی بانسری ہو، مگر ایک تو ورکنگ ماں، دوسرے جوایینٹ فیملی سسٹم، تیسرے ایک چھوٹا سا بچہ جسے لاچاری میں ایسے لوگوں کے پاس رہنا پڑ گیا تھا، جو اس کی تربیت کا بیڑا غرق کرنے میں کوی کسر نہ چھوڑ رہے تھے، خیر بچوں کے لیے ابتدائی سات سال بہت اہم ہوتے ہیں، بچے جو دیکھتے ہیں ان کے دل و دماغ پہ نقش ہو جاتا ہے لہذا والدین کو نہ صرف آپسی لڑائیوں سے پرہیز کرنا چا ہیے بلکہ بچوں کی تربیت درست پیمانے پہ بھی کرنی چاہیے ان کے ساتھ ایک اچھا اور معیاری وقت گزارنا چاہیے، ان کے سکول والوں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول میں رابطے میں رہنا چاہیے، تاکہ انسان صرف بچے پیداکرنے والی مشینیں ہی نہ بن جاییں، بچوں کی تربیت میں بھی اپنا حصہ احسن طریقے سے ڈالنا چاہیے تاکہ دنیا میں یہ اچھی تربیت والے بچے امن سکون قایم کرنے کے لیے عملی اور ذہنی طور پر تیار ہوں، غور کیجئے گا کہ کیا موجودہ دور کا انسان صرف اپنی جنسی لذت کی لت میں گرفتار ہو کے صرف اور صرف بچےجننے والی مشین ہی بن چکا ہے ناں؟؟؟اور بچوں کے ساتھ ایک کوالٹی وقت گزار کے ان کی بہتر تعلیم و تربیت ایک سہانا خواب ہی بنتی جا رہی ہے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور

خدارا اپنے بچوں کو وقت دیجیے تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
google.com, pub-9673306505872210, DIRECT, f08c47fec0942fa0