“بیٹنگ آرڈر اور بیٹنگ آرڈرلی!”
پاکستانی کرکٹ ٹیم کا حال آج کل اُس شادی کی طرح ہے جہاں دلہا تو تیار کھڑا ہے مگر باراتی سب اپنی اپنی گاڑیوں میں راستہ بھول گئے ہیں۔ کہیں کوچ ناراض، کہیں کپتان روٹھا، اور کہیں تجزیہ کار اپنی ہی بال گھما رہے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہاں دولہا بابر اعظم ہے اور نکاح نامے پر دستخط کروا رہا ہے — “پرفارمنس” سے، جو پچھلے میچ سے غائب ہے۔
رامیز راجہ نے لائیو تبصرے میں فرمایا، “یہ ڈرامہ کرے گا”۔ ارے حضور! یہ کرکٹ ہے یا تھیٹر؟ بابر اگر ڈرامہ کرے گا تو آپ اس کے ڈائریکٹر بننے پر کیوں تل گئے؟ قوم تو پہلے ہی میدانِ کرکٹ میں روز ایک نیا “سیزن” دیکھتی ہے — کبھی “تبدیلی 11″، کبھی “نیا وژن”، اور کبھی “ٹیم ری بلڈنگ”۔ اب اس کھیل کے اسکرپٹ میں “ڈرامہ” کا تڑکا بھی لگ گیا ہے۔
ہمارے کرکٹرز اب کھیل کم اور ریئلٹی شو زیادہ پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف بابر اعظم پریس کانفرنس میں فرما رہے ہوتے ہیں: “ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے”، اور دوسری طرف اگلے ہی میچ میں وہی غلطیاں “ری پلے” کی طرح دوبارہ نشر ہوتی ہیں۔ شائقین حیران ہیں کہ اگر یہ “سیکھنا” ہے تو اللہ خیر کرے جب یہ بھولنا شروع کریں گے۔
سب سے زیادہ دلچسپ کردار ہمارے “سابقہ کھلاڑی” ہیں جو اب “مستقل مبصر” بن چکے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو جب خود ٹیم میں تھے تو باؤنڈری کے بجائے باؤنسر کھاتے تھے، اور اب ہر نوجوان کو کہتے ہیں: “ہماری ٹیم کے زمانے میں غیرت تھی!” جی ہاں، غیرت تھی، مگر ساتھ وکٹ بھی اُڑ جاتی تھی۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر قوم دو گروپوں میں بٹ چکی ہے — ایک وہ جو کہتا ہے “بابر اعظم بادشاہ ہے”، اور دوسرا جو سمجھتا ہے “بابر کو اب محل خالی کرنا چاہیے”۔ سچ تو یہ ہے کہ بابر کے بیٹ سے آج کل بال کم اور “میemes” زیادہ نکل رہے ہیں۔ اور اگر ٹیم کی یہی حالت رہی تو اگلے ورلڈ کپ میں ہمیں بالوں کے بجائے “میemes کپ” جیتنے کا پورا موقع ہے۔
اب بات کریں کوچ کی۔ جناب کے مطابق “ٹیم میں ڈسپلن نہیں رہا۔” ارے بھائی! ٹیم میں ڈسپلن کیسے آئے گا جب کھلاڑیوں کو پتا ہی نہیں کہ وہ اوپنر ہیں، فِنشر ہیں یا TikTok کے اسٹار ہیں؟ لگتا ہے اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو فٹنس ٹیسٹ کے ساتھ “ایٹیٹیوڈ ٹیسٹ” بھی رکھنا پڑے گا۔
آخر میں یہی کہنا بنتا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ایک ایسی فلم ہے جس کا اسکرپٹ کوئی نہیں جانتا، اداکار سب اوور ایکٹنگ کرتے ہیں، اور پروڈیوسر ہر میچ کے بعد “ری بوٹ” کی بات کرتا ہے۔ اور تماشائی؟ وہ ہر بار اگلے میچ کی امید میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں جیسے کوئی پرانا عاشق جو جانتا ہے کہ دھوکہ ہوگا، مگر پھر بھی انتظار کرتا ہے۔
@@@@@@@@@@@@@@@