خون کا سفر، امن کی منزل
______________________________ ___________
یہ سال کچھ عجیب ہے — جیسے تاریخ نے اپنا چہرہ بدل لیا ہو، جیسے ہوا نے پرانی خوشبو چھوڑ دی ہو، جیسے سرحدوں کے پار خواب اب بندوقوں کے سائے میں جنم لے رہے ہوں۔ پاکستان کے لیے 2025 کوئی عام سال نہیں۔ یہ وہ سال ہے جس نے اس قوم کی ہمت، عزم، ایمان اور سفارتی بصیرت کا امتحان لیا ہے۔ ایک طرف گولیوں کی گونج ہے، دوسری طرف امن کے کاغذ پر لکھی ہوئی امید۔ ایک جانب دشمن کی سازش، دوسری جانب دوستوں کے بدلتے چہرے۔ یہ وہ وقت ہے جب پاکستان نے ایک بار پھر اپنی بقا کی جنگ لڑی — کبھی میدان میں، کبھی میز پر، کبھی دعا میں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025 کی وہ مختصر مگر شدید جنگ شاید آنے والی کئی دہائیوں تک یاد رکھی جائے گی۔ بھارت نے اسے “آپریشن سندور” کا نام دیا، مگر پاکستان کے لیے یہ محض ایک جنگ نہیں تھی، یہ غیرت، وقار اور سلامتی کی جنگ تھی۔ جب دشمن نے ہمارے علاقوں پر حملہ کیا تو قوم کے ہر سپاہی کے دل میں وہی آگ دہکنے لگی جو 1965 کے شہیدوں کے خون میں سلگتی تھی۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نے وہی کیا جو ایک زندہ قوم کرتی ہے۔ دشمن کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا، ان کے ڈرون زمین بوس کیے، اور دنیا کو یہ احساس دلایا کہ پاکستان کمزور نہیں — یہ ملک جب سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کی آواز گولیوں سے زیادہ گونجتی ہے۔ چار دنوں کی اس جنگ میں جب بھارت کے میڈیا نے اپنی “فتح” کے نعرے لگائے، پاکستان نے خاموشی سے اپنی کامیابی کو دنیا کے سفارتی نقشے پر رقم کر دیا۔ یہ صرف میدان کی جیت نہیں تھی، یہ حوصلے، اتحاد اور دفاعی حکمتِ عملی کی جیت تھی۔جنگ کے فوراً بعد جب دھواں چھٹا، تو دنیا کو احساس ہوا کہ اصل میدان اب سفارتکاری کا ہے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں پاکستان نے اپنی عقل، زبان اور کردار کے ہتھیار استعمال کیے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں پاکستان کا موقف اس وقار سے پیش کیا کہ دوست بھی چونک اٹھے، اور دشمن بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جو کبھی اسلاموفوبیا کے نعروں سے پہچانا جاتا تھا، آج پاکستان کا دوست بن چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب واشنگٹن میں شہباز شریف، ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک ہی میز پر بیٹھے تو وہ لمحہ پاکستان کی سفارتی تاریخ کا نیا موڑ تھا۔ وہاں صرف چائے نہیں پی گئی، وہاں بیانیہ بدلا گیا۔ ٹرمپ نے پاکستان کی حمایت میں کہا: “یہ قوم دنیا کو امن دینا چاہتی ہے، اور میں ان کے ساتھ ہوں۔” یہ جملہ صرف سیاست نہیں تھا، یہ اعتراف تھا کہ پاکستان اب عالمی قوتوں کے درمیان اپنا مقام پھر سے حاصل کر رہا ہے۔اسی دوران مشرقِ وسطیٰ سے ایک بڑی خبر آئی غزہ کا امن معاہدہ۔ وہ سرزمین جو برسوں سے خون میں نہا رہی تھی، جہاں ماں کے آنسو دریا بن چکے تھے، وہاں پہلی بار امن کا سایہ محسوس ہوا۔ اس معاہدے کی پشت پر کئی ممالک کی کاوشیں تھیں، مگر پاکستان کا کردار نمایاں تھا۔ اسلام آباد نے سفارتی سطح پر وہ دباؤ ڈالا جو شاید کسی اور مسلم ملک نے نہ ڈالا ہو۔ شہباز شریف نے اسے “عصرِ نو کی صبح” کہا، اور عاصم منیر نے فرمایا کہ “امن، ایمان کی توسیع ہے۔” پاکستان نے دنیا کو دکھایا کہ ہم صرف بندوق کے محافظ نہیں، ہم امن کے امین بھی ہیں۔ غزہ کا امن محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں تھا، یہ ایک اخلاقی فتح تھی — انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش۔لیکن دوسری جانب ہمارے مغرب کی سرحدوں پر حالات بدل گئے۔ افغان طالبان، جو کل تک ہمارے “تزویراتی بھائی” سمجھے جاتے تھے، آج بھارت کے قریب بیٹھے ہیں۔ کابل کے ایوانوں میں وہ لہجہ سنائی دے رہا ہے جو کبھی نئی دہلی کی شناخت تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی نے نیا موڑ لیا، سرحدی جھڑپوں نے جانی نقصان پہنچایا، اور طالبان کے رویے نے پاکستان کے لیے ایک نئے امتحان کی شکل اختیار کر لی۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی خودمختاری کا احترام کیا، مگر اب جب طالبان کے کچھ حلقے بھارت کے ساتھ تجارتی و عسکری تعلقات بڑھا رہے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا تاریخ خود اپنے وعدے توڑ رہی ہے؟ کیا ہم نے جو بھائی چارے کی دیوار بنائی تھی، وہ اب شک کے سایے میں ہے؟
پاکستان کے لیے یہ لمحہ سخت مگر سبق آموز ہے۔ اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دنیا بدل چکی ہے۔ دوست اب نظریات سے نہیں، مفادات سے بنتے ہیں۔ جس نے کبھی ہماری سرحدوں کا دفاع کیا، آج وہی سرحدوں کی دیواروں میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔ لیکن پاکستانی قوم ہمیشہ کی طرح صبر اور تدبر سے کام لے رہی ہے۔ ہم نے لڑنا سیکھا ہے، مگر ہم نے معاف کرنا بھی سیکھا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ امن صرف میز پر نہیں آتا، وہ قربانیوں کے رستے سے گزر کر آتا ہے۔پاکستان کے عوام تھک چکے ہیں لیکن ہارے نہیں۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی امید ہے، ان کے دلوں میں اب بھی وہ دعا ہے جو بادلوں کو پھاڑ سکتی ہے۔ یہی امید، یہی ایمان، یہی محبت پاکستان کی اصل طاقت ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حال ہی میں کہا: “ہماری اصل قوت ہماری نیت ہے، اور نیت جب خالص ہو تو جنگیں بھی دعاؤں سے جیتی جاتی ہیں۔” یہ جملہ کسی نعرے سے بڑھ کر ایک نظریہ ہے۔2025 پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن سال ہے۔ یہ سال ہمیں بتا رہا ہے کہ خون بہانے کے بعد بھی خواب زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ سال ہمیں سکھا رہا ہے کہ امن کبھی مفت نہیں ملتا، اسے عزت، حکمت اور قربانی سے خریدا جاتا ہے۔ اور یہ سال ہمیں یقین دلا رہا ہے کہ پاکستان، اپنی تمام مشکلات کے باوجود، اب بھی تاریخ کا زندہ کردار ہے — ایک ایسا کردار جو بار بار گرتا ہے مگر کبھی زمین پر ٹکتا نہیں، جو زخمی ہوتا ہے مگر مرہم بن کر اٹھتا ہے۔دنیا بدل رہی ہے، دوست دشمن بن رہے ہیں، دشمن مصافحہ کر رہے ہیں، مگر پاکستان اپنی جگہ قائم ہے — خون کی سرخی میں لپٹا، خوابوں کی روشنی سے منور، اور امن کے وعدے پر ڈٹا ہوا۔یہ وطن اب بھی وہی ہے — جس کے سپاہی صبح اللہ اکبر کہہ کر نکلتے ہیں، جس کے شاعر شام کو دعا لکھتے ہیں، اور جس کے دل میں، ہر بحران کے باوجود، یہ ایمان دھڑکتا ہے — کہ یہ ملک اللہ کے نام پر بنا تھا، اور اللہ ہی اسے قائم رکھے گا۔
عاشق علی جوئیہ میانچنوں۔