“ایلیزے میں نیا چہرہ، پرانے سوال”
فرانس کی سیاست ایک بار پھر ہلچل میں ہے۔ صدر ایمانوئل مکرون نے آخرکار وہ فیصلہ کر ہی لیا جس کی بازگشت کئی ہفتوں سے پیرس کے ایوانوں میں سنائی دے رہی تھی — یعنی ایک نیا وزیراعظم، ایک نیا چہرہ، اور ایک پرانی آزمائش۔ سِیبَسٹیان لیکورنو کا تقرر دراصل ایک ایسی سیاسی چال ہے جس کے ذریعے مکرون اپنی کمزور ہوتی گرفت کو دوبارہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک نیا چہرہ عوامی بے اعتمادی کو ختم کر پائے گا؟
فرانس گزشتہ ایک سال سے سیاسی بھونچال میں ہے۔ احتجاجوں کی گونج، پنشن اصلاحات پر عوامی غصہ، مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکلتے مظاہرین — سب کچھ مکرون کی حکومت کے لیے ایک دردِ سر بن چکا ہے۔ عوام اب وعدوں کے بجائے نتائج چاہتے ہیں۔ ایسے میں مکرون کا نیا وزیراعظم لانا ایک طرح کی سیاسی جوئے بازی ہے۔ لیکورنو نوجوان، نظم و ضبط کے قائل اور فوجی پس منظر رکھنے والے سیاستدان ہیں، مگر سیاست میدانِ جنگ سے مختلف ہوتی ہے، یہاں دشمن سامنے نہیں بلکہ ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔
فرانسیسی پارلیمان میں حکومت کی اکثریت محض کاغذوں میں ہے۔ اپوزیشن پہلے ہی سینہ تان کر کھڑی ہے اور نئی کابینہ کے ہر فیصلے کو پرکھنے کو تیار ہے۔ لیکورنو کو پہلا بڑا امتحان اسی ایوان میں دینا ہوگا، جہاں ہر قدم پر سیاسی بارودی سرنگ بچھائی گئی ہے۔ اگر وہ مفاہمت اور فہم کا مظاہرہ کریں تو حکومت کا پہیہ چل سکتا ہے، ورنہ یہ نیا چہرہ بھی پرانے زخموں پر محض پٹی بن کر رہ جائے گا۔
یہ تبدیلی صرف فرانس کے اندرونی معاملات تک محدود نہیں۔ فرانس ایک عالمی طاقت ہے، اس کی پالیسیوں کے اثرات افریقہ سے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم دنیا کے لیے یہ تبدیلی معنی رکھتی ہے۔ فرانس میں اسلام، مذہبی آزادی اور مسلمانوں کے سماجی حقوق ہمیشہ سے ایک نازک موضوع رہے ہیں۔ اگر نئی حکومت نے انتہا پسند بیانیے سے فاصلہ رکھتے ہوئے مکالمے کا دروازہ کھولا تو یہ ایک مثبت اشارہ ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہی تناؤ، وہی فاصلے اور وہی احتجاجی بینر دوبارہ سامنے آئیں گے۔
پاکستان کے لیے بھی یہ لمحہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ ماضی میں فرانس کے ساتھ ہمارے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، مگر اب جب دنیا تجارتی شراکت داری کے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے، تو اسلام آباد کے لیے پیرس ایک اہم اقتصادی دروازہ بن سکتا ہے۔ اگر فرانس کی نئی حکومت اعتدال، توازن اور احترامِ مذہب کی پالیسی اپناتی ہے تو یقیناً دونوں ممالک کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہو سکتی ہے۔
ایلیزے محل کی یہ تازہ تبدیلی محض اقتدار کی کرسی کا تبادلہ نہیں، بلکہ فرانس کے سیاسی ضمیر کا امتحان ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، اور دنیا کی نظریں اس نئے وزیراعظم پر جمی ہوئی ہیں۔ لیکورنو کے لیے اب یہ طے کرنا آسان نہیں کہ وہ تاریخ کے صفحے پر ’’تبدیلی کا استعارہ‘‘ بنیں گے یا ’’نظام کے ایک اور مہرے‘‘ کے طور پر یاد کیے جائیں گے۔
فرانس کا موسم بدل رہا ہے، مگر سوال یہ ہے — کیا ہوا کی سمت بھی بدلے گی؟
@@@@@@@@@@@@@@@@