تحریر : صائمہ عروج
شالامار باغ پنجاب کا ثقافتی ورثہ
کہیں پہ پھول کھل جائیں
خوشی اس کو ہی مل جائے
کہ آئے ہو جہاں میں تم
کہیں بارش کی رم جھم ہے
تری آواز آئے ہے
کہ جنگل مسکرائے ہے
کہ صحرا گنگناتے ہے
کہ آئے ہو جہاں میں تم
کہ جیون رنگ تمہی سے ہے
جہاں بھی سنگ تمہی سے ہے
میرا ہر جھنگ تمہی سے ہے
سدا اب شاد رہنا تم
یونہی آباد رہنا تم
میں اتنا جانتی ہوں کہ
جہاں تم ہو خوشی ہے واں
جہاں تم ہو خوشی ہے واں
محمد شاہ جہاں اول سلطنت مغلیہ کے پانچویں شہنشاہ 5 جنوری 1592ء ” لاہور میں پیدا ہوئے۔ ۔ شاہ جہاں کا عہد مغلیہ سلطنت کے عروج کا دَور تھا اور اِس دور کو عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 1627ء میں شاہ جہاں نے آگرہ قلعہ میں خود کو شہنشاہ کا تاج پہنایا۔ انھوں نے لال قلعہ، شاہ جہاں مسجد اور تاج محل سمیت کئی یادگاریں تعمیر کیں
مغل بادشاہ شاہجہان نے جب لاہور میں دربار لگایا تو علی مردان خان نے اسے بتایا کہ اس کے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے جو نہر بنانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔ شاہ جہاں نے خوش ہو کر حکم دیا کہ دریائے راوی سے ایک نہر نکال کر لاہور کے پاس سے گزاری جائے۔ شاہ جہان نے یہ نہر تیار کرنے کے لیے دو لاکھ روپے دیے۔ ایک سال کے بعد جب شاہ جہاں دوبارہ لاہور آیا تو نہر مکمل ہو چکی تھی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس نہر کے کنارے ایک وسیع و عریض اور بہت خوبصورت باغ تعمیر کیا جائے اور اس باغ میں بارہ دری، شاہی غسل خانے، فوارے اور جابجا پھلدار درخت لگائے جائیں۔ شاہی ماہر تعمیرات نے باغ کی تعمیر کے لیے جس زمین کا انتخاب کیا وہ علاقہ کے معروف زمیندار میاں محمد یوسف عرف مہر مہنگا کی ذاتی ملکیت تھی۔ بادشاہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو میاں محمد یوسف کو منہ مانگی رقم دینا چاہی پر میاں محمد یوسف نے یہ زمین بلا معاوضہ بادشاہ کو تحفہ کے طور پر پیش کر دی۔ بادشاہ اس رویہ پر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے باغ کی تعمیر مکمل ہونے پر میاں محمد یوسف کو ہی ناظم شالامار مقرر کر دیا۔ باغ کے تعمیر کے لیے بادشاہ نے خلیل اللہ خان کو مقرر کیا لہٰذا خلیل اللہ خان نے ملک کے کئی اور افسروں کو ساتھ لگا کر اس باغ کی تعمیر شروع کر دی۔ باغ کے لیے درختوں کے پورے قندھار اور کابل سے منگوائے گئے۔ یہ باغ شالا مار تھا جو اسی(80) ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے اس باغ کا سنگ بنیاد 1637ء میں رکھا گیا۔ اس پر چھ لاکھ روپے کے لگ بھگ لاگت آئی ڈیڑھ سال کے عرصہ میں یہ مکمل ہوا تھا۔ شاہ جہاں نے لاہور کے قریب جو باغ لگوایا اس کا نقشہ کشمیر والے باغ کے مطابق تھا لہٰذا اس کا نام بھی شالامار باغ رکھ دیا گیا۔ شالامار باغ تین تختوں پر مشتمل ہے تینوں تختے تین الگ الگ باغ ہیں جن کے نام فیض بخش، حیات بخش اور فرح بخش ہیں۔ یہ تختے یا باغ ایک دوسرے سے بارہ یا تیرہ فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ ہر اونچے تختے سے نیچے اترنے کے لیے خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ باغ میں ایک دلکش تالاب بھی بنا ہوا ہے جس میں بہت سارے فوارے لگے ہوئے ہیں۔ فواروں کا پانی سنگ مرمر کے حوضوں میں گرتا ہے۔ یہ فوارے گرمیوں کے موسم میں جگہ ٹھنڈی رکھنے کے لیے لگوائے گئے تھے۔ یہاں پر سنگ مرمر کی پانچ خوبصورت بارہ دریاں بنائی گئی ہیں۔ بادشاہ ان بارہ دریوں میں بیٹھ کر برسات کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ باغ کے ایک حصے میں جسے حیات بخش کہتے ہیں۔ سنگ مرمر کا ایک بہت ہی خوشنما تخت بنوایا گیا ہے شاہ جہاں اس تخت پر بیٹھ کر اپنا دربار لگایا کرتا تھا۔ کچھ فاصلے پر سنگ مرمر کی ایک آبشار بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی زیب النساء چونکہ شاعرہ تھی اس لیے اکثر اس جگہ بیٹھ کر شعر کہا کرتی تھی۔ شالا مار باغ میں شاہ جہاں نے اپنے لیے حمام بھی بنوایا تھا۔ حمام کے تین حصے تھے ایک حصے میں دو فوارے اور دوسرے حصے میں حوض ہے اس حوض میں گرم اور ٹھنڈا دونوں طرح کا پانی لایا جاتا تھا۔ سنگ مرمر کے کئی طاقچے چراغ رکھنے کے لیے بنوائے گئے تھے۔ جب یہاں چراغ جلائے جاتے تھے تو حوض میں گرنے والا پانی بارش کا سماں پیدا کرتا اور چراغ کی روشنی بجلی کی چمک کی طرح معلوم ہوتی بادشاہ اس نظارے سے بہت لطف اٹھاتا تھا۔ باغ فرح بخش، جسے پائیں باغ بھی کہا جاتا تھا حیات بخش سے نیچے بنا ہوا ہے شالا مار باغ میں بہت پھلدار درخت لگے ہوئے ہیں۔ شاہجہان جب لاہور آیا تو امیروں اور وزیروں نے عرض کی کہ حضور! شالامار باغ مکمل ہو چکا ہے۔ بادشاہ باغ میں داخل ہوا تو شالامار کا حسن دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔ اس وقت شاہجہان کے نائبین نے حاضر ہو کر مبارکبادیں دیں اور سب نے مل کر شاہی حکومت کی بہتری اور برتری کے لیے دعائیں مانگیں۔ اس موقع پر ملک کے بڑے بڑے عالم، فاضل اور بزرگ موجود تھے۔ ان عالموں نے بادشاہ سے کہا کہ آج تک دنیا میں ایسا خوبصورت باغ نہ کہیں دیکھا نہ سنا ہے۔ باغ کے گرد اونچی اونچی دیواریں بنائی گئیں۔ لاہور کا شالا مار باغ دنیا کے عظیم الشان باغوں میں شمار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کسی دوست ملک کا سربراہ، بادشاہ یا کوئی نامور شخص پاکستان کے دورے پر آتا ہے تو لاہور میں شالا مار باغ کی سیر ضرور کرتا ہے اس باغ میں معزز مہمانوں کو شہریوں کی طرف سے استقبالیہ دیا جاتا ہے ہزاروں شہری معزز مہمان سے ملتے ہیں اور بات چیت کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد دوست ملکوں کے سربراہ اور نامور رہنماء اکثر یہاں آتے رہتے ہیں اور باغ میں استقبالیہ ان کے پروگرام کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ معزز مہمانوں کو شالا مار باغ میں دعوت دینے کی رسم انگریزی حکومت کے زمانے میں بھی رائج رہی چنانچہ 1876ء میں شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم جو اس وقت پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد سلطنت تھے برصغیر کی سیاحت کے سلسلے میں لاہور آئے تو ان کے اعزاز میں پنجاب کے گورنر نے شالا مار باغ میں رات کے وقت ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا۔ شالا مار باغ کی شاہی حیثیت برس ہا برس پہلے ہی ختم ہو چکی تھی لیکن اس عوامی سیرگاہ کی حیثیت لازوال ہے باغ کی سیر کرنے کے لیے لوگ دور دراز سے آتے ہیں۔ بہار کے شروع میں یہاں میلہ چراغاں بھی لگا کرتا تھا جو پنجاب کا سب سے بڑا میلہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب یہ میلہ باغ کے باہر لگتا ہے۔ یہ باغ مغل بادشاہوں کی عظمت کی منہ بولتی یاد گار ہے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ا س باغ کو عالمی ثقافتی ورثہ کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کی بقاء اور تحفظ کے لیے خصوصی مہم شروع کر رکھی ہے
محمد شاہ جہاں 22 جنوری 1666ء کو اپنے خالق _حقیقی سے جا ملے ۔مگر باغات سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہیں ۔