25

علما کے فتوے پر اعتراض کیوں؟ وہ خود فلسطین کیوں نہیں جاتے؟ ایک علمی و فکری تجزیہ تحریر *محمد عثمان حیدری*

علما کے فتوے پر اعتراض کیوں؟ وہ خود فلسطین کیوں نہیں جاتے؟ ایک علمی و فکری تجزیہ

تحریر *محمد عثمان حیدری*

حال ہی میں پاکستان کے ممتاز دینی علما، جن میں مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن جیسے جید اہلِ علم شامل ہیں، نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ اس میں انہوں نے فلسطین میں جاری ظلم و بربریت کے تناظر میں واضح طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ ان حالات میں مسلم ریاستوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ اجتماعی سطح پر اس ظلم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔اس فتوے کے ردعمل میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ “علما خود فلسطین کیوں نہیں جاتے؟ صرف فتوے کیوں دیتے ہیں؟” اس سوال کا جائزہ نہایت سنجیدگی اور ذمہ داری سے لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ ایک فکری مغالطے پر مبنی اعتراض ہے۔
1. جہاد کا دائرۂ اختیار — افراد کا نہیں، ریاستوں کا فرض اسلامی شریعت کے اصولوں کے مطابق جہاد بالقتال کا آغاز، قیادت اور تنظیم ایک ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، کسی فرد یا غیر ریاستی گروہ کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علما ہمیشہ یہ بات دہراتے آئے ہیں کہ “پرائیویٹ جہاد” (نجی مسلح جدوجہد) فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے اور غیر منظم جدوجہد امت کو مزید تقسیم کرتی ہے۔اگر کوئی سیاسی جماعت یا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ انفرادی طور پر اسلحہ اٹھانا جائز ہے، تو انہیں چاہیے کہ وہ کھل کر اپنے نظریے کا اظہار کریں اور واضح کریں کہ وہ علما سے کیوں یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس مسلح جدوجہد میں بذاتِ خود شامل ہوں۔
2. علمائے کرام کا کردار محض فتویٰ تک محدود نہیں رہا
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی امت مسلمہ کو اجتماعی خطرات لاحق ہوئے، علمائے حق نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔تحریکِ آزادی ہند میں سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، اور بعد ازاں دارالعلوم دیوبند کے علما نے انگریز سامراج کے خلاف عملی جہاد کیا۔1857 کی جنگِ آزادی میں ہزاروں علما کو پھانسی دی گئی یا جلاوطن کیا گیا۔قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں مفتی شفیع عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی، اور دیگر اکابرین نے دو ٹوک موقف اپنایا۔
تاریخ گواہ ہے کہ علمائے کرام نے کبھی مشکل وقت میں قوم سے منہ نہیں موڑا۔ یہ کہنا کہ علما محض فتوے دیتے ہیں، ان کے کردار اور قربانیوں کی توہین ہے۔
3. کیا فتویٰ دینا جرم ہے؟
فتویٰ دینا علما کی شرعی، آئینی اور قومی ذمہ داری ہے۔پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کا آئینی مذہب “اسلام”ہے۔ آئین کی رُو سے یہاں اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، مجلسِ علماء اور دیگر ادارے شرعی رہنمائی کے لیے قائم ہیں۔ ایسے میں جب فلسطین کی صورتحال پر امت مسلمہ کے دل مضطرب ہوں اور شرعی رہنمائی کی طلب ہو، تو علما کا خاموش رہنا غیر ذمہ داری ہوتی۔علمائے کرام نے جہاد کا اعلان نہیں کیا، بلکہ یہ مطالبہ کیا کہ مسلم حکومتیں, جو عسکری طاقت اور سیاسی حیثیت رکھتی ہیں, اپنی ذمہ داری ادا کریں اور مظلوم فلسطینیوں کی عملی مدد کریں۔امت مسلمہ کی فکری زوال کی سب سے بڑی علامت یہی ہے کہ سنجیدہ طبقات، اہلِ علم، اور ذمہ دار آوازوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جذباتی نعرے بازوں کو ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ رویہ جاری رہا، تو ایک دن وہ وقت آئے گا جب حقیقی علما مکمل خاموشی اختیار کر لیں گے اور پھر امت صرف شور و غوغا اور جہالت کا منظر پیش کرے گی۔علمائے کرام نے نہ صرف ایک فتویٰ دیا، بلکہ امت مسلمہ کوجھنجھوڑا اور مسلم حکمرانوں کو ان کی اصل ذمہ داری یاد دلائی۔ یہ آواز فتنے کا نہیں، بیداری کا پیغام ہے۔ اگر ہم نے اس آواز کو بھی طنز و تحقیر کا نشانہ بنایا، تو پھر ظلم کے خلاف بولنے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں