29

اپریل 2022 میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت ملک میں 145,150 روپے فی لیٹر تھی اور حکومت 10 روپے فی لیٹر سبسڈی دے رہی تھی اس

اپریل 2022 میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت ملک میں 145,150 روپے فی لیٹر تھی اور حکومت 10 روپے فی لیٹر سبسڈی دے رہی تھی اس سبسڈی سے ملک کا ہر شہری مستفید ہو رہا تھا۔ کاروبار چل رہے تھے لاگت کم ہونے کی وجہ سے مہنگائی کم تھی جوکہ ملازمین کے لیئے بھی فائدہ مند تھی۔ زراعت اورصنعت بھی چل رہی تھی ملکی جی ڈی پی 6٪ سے زائد تھی اور شرح سود 6٪ تھی ملکی دولت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پھر مافیا سرگرم ہوا رجیم چینج آپریشن ہوا حکومت بدل کر مافیا مسلط ہوا اور صرف پیٹرولیم مصنوعات پر جو سبسڈی دی جا رہی تھی وہ ختم بھی کی گئی بلکہ اس پر 60 روپے فی لیٹر لیوی ٹیکس لگایا گیا۔ 10% ودہولڈنگ ٹیکس لگایا گیا جوکہ موجودہ ریٹ 259 کے حساب سے تقریباً 26 روپے فی لیٹر بنتا ہے۔ 5.53 روپے فی لیٹر ٹرانسپورٹیشن چارجز، ڈسٹریبیوشن چارجز 6.94 روپے فی لیٹر۔
7.82 روپے فی لیٹر ڈیلر مارجن۔
کسٹم ڈیوٹی 21 روپے فی لیٹر۔
12 روپے فی لیٹر ایڈجسٹمنٹ مارجن وصول کیا جا رہا۔
38 پیسہ فی لیٹر ایکسیڈنٹ ٹیکس کی مد میں وصول کیا جا رہا۔
یہ تمام ٹیکس ملا کر 140 روپے فی لیٹر بنتے ہیں جو اس وقت حکومت وصول کر رہی ہے جوکہ سالانہ 1200 ارب روپے بنتے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے جس نے صنعت اور زراعت کو تباہ کیا ہے 13 روپے والا بجلی یونٹ 46 روپے کا ہوگیا اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھنے سے مہنگائی میں 46٪ اضافہ ہوا۔ جی ڈی پی 6٪ سے کم ہوکر منفی میں چلی گئی۔ شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلی گئی۔ یہ 1200 ارب روپے ہر سال خاموشی سے صرف تیل کی مد میں عوام کی جیبوں سے نکل رہا ہے۔ جس سے دولت میں کمی واقع ہوئی ہے لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے۔ حکومت نے 50 سے زائد سکیم کا اجرا کیا ہے۔ جس میں سکالرشپ، فری ادویات، بغیر سود قرض، فری وائی فائی، کسان کارڈ، ڈیری کارڈ، لیپ ٹاپ، سکول نیوٹریشن پروگرام، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، دھی رانی پروگرام، اپنا گھر سکیم، ای بائیک سکیم،
ان تمام سکیم کی کل مالیت 1200 ارب روپے نہیں بنتی۔ ابھی صرف تیل کے ٹیکس کی ڈیٹیل بتائی ہے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے ہم اپنی جیب سے کیا ادا کر رہے اوڑ بدلے میں حکومت کی پالیسیاں کیا ہیں۔
بجلی پر لگے ٹیکس بجلی کے بل سے خود دیکھ لیں۔ گیس پر لگے ٹیکس آپ گیس بل سے خود دیکھ لیں۔ موٹروے ٹال ٹکیکس کی فیس 4 گناہ بڑھادی گئی ہے پراپرٹی ٹیکس میں 300٪ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ لائسینس اور چالان کی فیس میں 700٪ اضافہ ہوا ہے۔ اتنے ٹیکسوں میں اضافہ کے باوجود حکومت روازانہ 46 ارب روپے کے حساب سے قرض لے رہی ہے اس وقت آبادی میں ریکارڈ اضافے کے باوجود ملک کا ہر شہری 3 لاکھ بیس ہزار روپے قرض کے بوجھ تلے ہے۔ سکول، ہسپتال، ایئر پورٹس، سفاری پارک، چڑیا گھر تک بیچ دیئے گئے ہیں۔ پی آئی اے کو 10 ارب میں کسی نے نہیں خریدا حالات اس نوبت تک پہنچ چکے۔ ہماری ذمہ داری ہے ہم وہ بھی دیکھیں جو ہمیں دکھایا نہیں جاتا۔ مہنگائی میں اضافے کے بعد اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں 600٪ اضافہ کیا گیا ہے تو باقی سرکاری ملازمین کا کیا قصور ہے۔ جنکو ہاوس رینٹ کی مد میں صرف 2214 روپے اور کنوینس الاؤنس کی مد میں صرف 2856 روپے مل رہے۔ ان الاونسز میں بھی 600٪ اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ اور مہنگائی کے تناسب سے یوٹیلیٹی الاؤنس بھی دیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں