انقلاب شام مثل پاکستان
ازقلم غنی محمود قصوری
اس وقت ارض انبیاء مملکت شام مکمل طور پر بشارا لاسد کے قبضہ سے نکل کر اپوزیشن عسکری ونگز کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور اسی باعث
کچھ لوگ بڑے وثوق اور جوش سے مملکت شام کی مثال دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی شام جیسا انقلاب آنے والا ہے
جن کا خالصتاً مقصد صرف صرف اپنی سیاسی جماعت کو آگے لانا ہے
یہ بات کہنے میں بظاہر تو بہت آسان اور سادا ہے مگر ایسا ہونا اللہ کے فضل سے ناممکن ہے مذید بات آگے بڑھانے سے پہلے میں آپکو مملکت شام کا تھوڑا سا تعارف کروا دیتا ہوں تاکہ ہمیں شام اور پاکستان کے تقابل کرنے میں آسانی رہے
ارض شام میں 80 فیصد عرب 10 فیصد کرد اور 10 فیصد دیگر آبادی کے لوگ سکونتی ہیں جن میں سے 87 فیصد مسلمان ہیں اور ان میں سے بھی 74 فیصد اہل سنت مسلمان لوگ ہیں باقی 13 فیصد اہل تشیع لوگ ہیں
باقی آبادی میں سے 10 فیصد عیسائی اور 3 فیصد لوگ دروز مذہب سے تعلق رکھتے ہیں
مملکت شام جسے عربی میں السوریہ کہا جاتا ہے،1920 سے 1946 تک فرانس کے قبضہ رہا اور اس کے بعد 1961 میں بعثت پارٹی کے زیر اقتدار چلا گیا اور 8 دسمبر 2024 تک بعثت پارٹی کے ہی زیر کنٹرول رہا یعنی کہ 63 سال صرف ایک ہی پارٹی نے حکومت کی
موجودہ صدر بشارا لاسد جس کا تعلق بعث پارٹی سے تھا، نے سنہہ 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کی وفات کے بعد اقتدار سنبھالا تھا جس کا تعلق اہل تشیع مسلک سے ہے
بعثت پارٹی کے اس دور حکومت میں اپنے مسالک کے لوگوں کو ہی شامل کیا گیا تھا اور بعثت پارٹی نے طاقت کے زور پر اپنا تسلط برقرار رکھا
اس سارے دور کے دوران دیگر لوگوں نے شروع سے ہی مسلح جدوجہد کی اور بعض علاقوں پر کنٹرول بھی حاصل کرتے رہے مگر روس اور دیگر ممالک کی حمایت ہونے کے باعث بشار الاسد کی حکومت قائم رہی
بعثت پارٹی کے اس سارے دور میں مملکت شام نے نا تو کوئی معاشی ترقی کی نا ہی شامی عوام کی زندگیوں میں فرانسسیسی راج کے مقابل کوئی بہتری ہوئی بس ہر وقت جنگ تھی عوام کو کوئی پتہ نہیں تھا کب کس جگہ کس وقت حکومت سے ذرا سا اختلاف ہو جائے اور کس وقت انہیں موت کے گھات اتار دیا جائے گا
حتی کہ اپنی حکومت بچانے کی خاطر حافظ الاسد اور اس کے بیٹے بشارالاسد نے ریڈ زون جیلیں بنائی ہوئی تھیں جہاں اپنے مخالفین کو قید کرکے رکھا جاتا اور پھانسی دی جاتی تھی
بشارالاسد نے اس قدر قتل عام کیا کہ یو این او جیسا غیر مسلم ادارہ بھی کئی بار چیخ پڑا اور درجنوں بار سنی العقیدہ لوگوں کی اجتماعی قبریں بھی میڈیا پر دکھائی گئیں جس میں سینکڑوں کے حساب سے لوگوں کو قتل کیا گیا اور پھر کرین کی مدد سے گڑھے میں مشترکہ دفنا دیا گیا نا کوئی غسل نا کوئی جنازہ
یہ مناظر لکھنے کہنے میں بہت آسان ہیں مگر درحقیقت بہت تکلیف دہ ہیں اسی لئے اپوزیشن دھڑوں نے مسلح جدوجہد بعثت پارٹی کے آغاز سے اختتام تک نا چھوڑی
وہ لوگ جان لیں جو پاکستان میں انقلاب کی باتیں کرتے ہیں کہ مملکت شام پر بشارالاسد کے باپ حافظ الاسد نے 29 سال حکومت کی اور اپنے دور حکومت میں اپنے مسلک کے علاوہ اس نے کسی بھی مسلک کو قبول نا کیا مخالف مسالک کے لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور انہیں زندہ درگور کیا گیا
مخالف مسالک کی مسجدوں کو بند کر دیا گیا اور اپنے مخالفین کیلئے جیلیں بنوائیں گئیں جس میں مخالفین کو قید کیا جاتا حتی کہ حافظ الاسد کے بعد اس کے بیٹے بشارالاسد نے 24 سال حکومت کی جسے روس جیسی طاقت کی حمایت حاصل تھی اور اس نے بھی اپنے باپ کے نقش قدم کے مطابق کام کیا یعنی کہ
اپنے مخالفین قتل کروائے
بشارالاسد کی فوج میں صرف اس کا ہم مسلک ہی بھرتی ہوتا اور ہم مسلک ہی ہر طرح گورنمنٹ کا حصہ بنایا جاتا تھا جو کہ خالصتاً درندگی کی ایک نمایاں مثال ہے
جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں چاروں مسالک آزاد ہیں اور ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں ہر مسالک کے لوگ موجود ہیں نیز مذہبی جماعتیں بھی اپنے اجتماعات و پروگرام میں آزاد ہیں
گورنمنٹ میں ہر مسالک کا بندہ اعلی سے ادنی عہدے پر فائز ہے اسی طرح فوج میں بھی چاروں مسالک کے لوگ اعلی سے ادنی عہدوں پر براجمان ہیں حتی کہ مملکت پاکستان کے اندر ہندو،سکھ،عیسائی بھی اپنی عبادت و ریاضت میں آزاد ہیں اور گورنمنٹ کے عہدوں پر بھی محدود سطح پر موجود ہیں
پاکستان میں الیکشن کروائے جاتے ہیں جس میں ہر جماعت حصہ لیتی ہے اور تینوں بڑی پارٹیوں کے لوگ صدر و وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں نیز اسلام پسند اور جمہوریت کا رد کرنی والی سیاسی مذہبی جماعتیں بھی الیکشن میں حصہ لیتی ہیں جو جمہوریت کے ذریعے خلافت لانے کا دعوی کرتی ہیں
اگر رب کو گواہ بنا کر میرٹ کی سطح پر دیکھا جائے تو مملکت شام میں لڑائی حقوق المسالک کی ہے جبکہ پاکستان میں مسالک آزاد ہیں جو جو لوگ شام کی مثالیں دے رہے ہیں وہ تقابل کی اصلاح کر لیں کہ آپ نے لڑنا اپنے انفرادی حقوق کی خاطر ہے کہ اپنے مسالکی حقوق کی خاطر؟
اگر اپنے حقوق کی خاطر لڑنا ہے تو آپ کی جماعت تو حکومت کر چکی یا پھر کر رہی اور اگر مسلکی طور پر لڑنا ہے تو اپنی گلی محلہ دیکھیں اپنا شہر دیکھیں اور پھر اپنی سیاسی جماعت دیکھیں اس میں چاروں مسالک کے لوگ آزادانہ موجود ہیں
کسی صورت کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کسی بھی چیز سے محروم نہیں
ہاں ہمارے ہاں یہ رواج ہے
جو الیکشن ہار جیتا ہے وہ اگلے پانچ سال پھر دھاندلی کا رونا روتا ہے اور پھر جیت جانے پر اسی فوج اور اسی پاکستانی عوام کو اپنا آئیڈیل کہتا ہے
کہ ہار جانے پر جسے رگڑا لگایا جاتا رہا اور پھر اگلے الیکشن میں ہار جانے پر پھر اپنی مخالف پارٹی و فوج اور عوام کے خلاف ہو جاتا ہے
سو یہ سلسلہ بہت عرصہ سے جاری ہے اور شاید رہے بھی مگر ان شاءاللہ مملکت شام جیسے حالات پاکستان کے نا ہونگے نا ہونے ہیں ان شاءاللہ
ہاں یہ ضرور ہے یار لوگ پوری کوشش کر بیٹھے اور تھک ہار کر بیٹھ گئے باقی آگے کیا ہو گا ان شاءاللہ رب بہتر جانتا مگر ماضی گواہ ہے کون کیا تھا اور کون کیا ہے
اس فوج میں بھی چاروں مسالک موجود ہیں اس گورنمنٹ میں بھی اور اس اپوزیشن میں بھی پھر جو انارکی پھیلائی جا رہی اس کا جواز نہیں بنتا