سکھر ۔۔
بیورو چیف ۔۔۔سید نصیر حسین زیدی ۔۔
دعا آن لاین نیوز
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم نے فروری 2024کے انتخابات کو نہ تسلیم کیا تھا نہ کریں گے ان کو تسلیم کرنا ہمارے نظریئے کے خلاف ہوگا ہم جب تک ملک میں منصفانہ الیکشن نہیں ہوتے چین سے نہیں بیٹھیں گے یہ اسمبلیاں عوام کی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ اسمبلیاں ہیں جو خرید کر اور بولیاں لگا کر بنائی گئی ہیں ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے
سکھر میں سندھ باب السلام کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ جس صوبے سے وفاق کو یلغار کی شکایت ہے ان لوگوں کو حکمرانی بھی تو خود انہوں نے دی ہے جب وہ نااہلوں کو حکمرانی دیں گے تو نتائج یہی آئیں گے ان کا کہنا تھا کہ جب ایک صوبے کے لوگ آرہے تھے تو ان ہی لوگوں نے راستے کھول کر ان کو راستہ دیا اور احسان جتایا کہ انہوں نے گولی نہیں چلائی تو جب وہ ڈی چوک پہنچے تو پھر گولی کیوں چلائی سیاسی کارکن تھے اگر تین چار دن بیٹھ جاتے تو کیا ہوتا ہم کسی پارٹی کے فیصلوں کے ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ اگر ہم سے مشورہ لیں گے تو ہم ان کو ہر مشورہ پوری دیانتداری سے دیں گے ان کا کہنا تھا کہ ہر الیکشن میں ایسی اسمبلیاں بنانے کی کوشش کی گئی جس سے انہوں نے اور ان کی پشت پر موجود طاقتوں نے اس آئین کا حلیہ بگاڑنے کا سوچا ا مرضی کی قانون سازی کرانے کی ا کوشش کی ہماری سولہ نشستیں تھیں لیکن ہمارا مینڈیٹ چوری کرکے آٹھ سیٹوں تک محدود کردیا گیا لیکن اللہ نے ان لوگوں کو ایسا پھنسایا کہ ان کے پاس مسئلے سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ باقی نہ تھا ترمیم کی بات کی تو کہنے لگے آج ہی پاس کروانی ہے لیکن ہم نے مسودہ طلب کیق تو ہمیں مسودہ تین رات بعد ایک لفافے میں ڈال کردیا گیا جس میں پچپن شقیں تھیں جن کا ہم نے مطالعہ کیا تو وہ وہ آئینی ترامیم نہیں تھیں کالا ناگ تھا جس کے ذریعے قوم کو ڈسا جارہا تھا اس میں آئین کو پامال کیا گیا تھا بنیادی انسانی حقوق ختم کردیئے گئے جمہوریت بے نام رہ گئی تھی عدلیہ کا بیڑا غرق کیا گیا تھا لیکن جو مسودہ پچپن شقوں پر مشتمل تھا اسے ہم بائیس شقوں پر لے آئے ایک مہینے تک ان لوگوں نے میری نیندیں حرام کیں لیکن میں نے بھی ان کی نیندیں حرام کیے رکھیں پھر قابل قبول مسودہ بنا تو ہم نے اس میں پانچ مزید شقیں شامل کیں اور آٹھ نشستوں کے ساتھ دیندار طبقے کی آرزوں کا مداوا کیاان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں آئین اور قانون کو مذاق بنادیا گیا ہے اس آئین کا مذاق جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف سمیت دیگر جرنلوں نے اڑایا ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس ملک کے کچھ تقاضے ہیں اگر ہم اسلام اور دین کی بات کریں اس کا مطلب اسلام امن وآشتی کا پیغام ہے انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اسلام بہتر معیشت کی نوید سناتا ہے لیکن ہمیں گریبانوں میں جھانکنا چاہیے ان قوتوں کو گریبانوں میں جھانکنا چاہیے جو ستھتر سالوں سے مسلط ہیں کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہم نے لاالہ الااللہ سے وفا کی ہے ہم نے کیا اس سے دغا نہیں کی ہم نے اپنے طرز حکمرانی اور فتنہ انگیزی سے اللہ کء عذاب کو دعوت نہیں دی پھر ہم اس کی رحمت کے کیسے مستحق ہو سکتے ہیں جرنیل وردی پہن کر اور سینے پر بلے لگا کر وطن کو خوبصورت نہیں بنا سکتے ہیں ہمیں ناکامی کو تسلیم کرنا ہوگا جے یو آئی ہر صوبے کے حقوق پر اس صوبے کے عوام کے ساتھ ہے انہوں نے صدر آصف زرداری سے سوال کیا کہ کیوں دینی مدارس کے حوالے سے بل پر دستخط نہیں کیے جارہے ہیں حالانکہ اس پر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت نے اتفاق رائے کیا تھا پھر کیوں دستخط نہیں ہورہے ہیں اگر جلد دستخط نہ ہوئے تو جے یو آئی پورے ملک کے کونے کونے سے اٹھے گی اور اسلام آباد کا رخ کریں گے آٹھ دسمبر کو پشاور میں اسرائیل مردہ باد کے ساتھ حکمران مردہ باد کا نعرہ بھی لگائیں گے