*سید کبیر الدین کبیر الاولیاء شاہ دولہ گجراتی بغدادی*
بدھ 27 نومبر 2024
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
تاریخ تصوف کے مطابق شاہ دولہ جن کا اصلی نام سید کبیر الدین ابن سید موسیٰ حنبلی بغدادی تھا یاد رہے کہ یہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی مشہور کرامت 12 سال ڈوبی رہی باراتیوں کی کشتی والی بارات کے دولھا تھے جو بعد میں شاہ دولہ کہلائے۔
یاد رہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی کے رہنے والے تھے اور مسلک کے اعتبار سے حنبلی تھے اور پکے اہل حدیث تھے اور رفع یدین کرتے تھے
آپ کی جائے پیدائش بغداد شریف اور سنہ پیدائش 500ھ ہے۔ آپ کے والد غوث پاک کے خاص دوست تھے۔
بتوحید آں عارف حق گزیدہ، بگو شاہ دولہ بجنت رسیدہ 1085 عہ.
*بیعت و خلافت*
جناب غوث پاک اپنی تصنیف کرتبہ وحدت میں تحریر فرماتے ہیں کہ 19 رجب521 بروز جمعرات بعد نماز مغرب میں نے سید کبیر الدین کو بیعت توبہ سے مشرف کرکے تعلیمات وکفیاتِ باطنی سے بہرمند کیا اور ترقیِ باطنی میں متوجہ کر دیا۔ اس واقعہ کی تصدیق شاہ دولہؒ نے اپنی کتاب تحفہ الارواح میں بھی فرمائی ہے۔ بیعت توبہ کے 27سال بعد شیخ کی کامل توجہ مرید ِخاص کی طرف ہوئی اور نویں ذیقعدہ 548 ھ کو بروز پیر بعد عصر محفل عام میں اپنے سامنے بیٹھا کر حضور غوث پاک نے حضرت کبیر الدین شاہ دولہ ؒ کو بیعت امامت اور صاحب ارشاد کے منصب سے مشرف کیا۔ شاہ دولہ اپنی بیعت و خلافت کا احوال اپنی تصنیف تحفتہ الارواح اَسرارِ اکبر الکبیر میں درج فرماتے ہیں کہ جب میں حضور غوث پاکؒ کے دستِ حق پر بیعتِ امامت اور ارشاد سے مشرف ہوا تو آپ نے فرمایا تھا کہ قائم سلسلہ کا رہنا موقوف ہے۔ ( یعنی سلسلہ قادریہ سلسلہ الذہب کی ترویج کبیر الدین الدین شاہ دولہ کی بجائے شاہ منور علی سے ہوگی) چنانچہ مجھ سے تو اور تجھے سےمنور علی ہے۔ وقت خلافت آپؒ نے وہ کلاہ ِمتبرک جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے آپؒ کے پیر ومرشد تک پہنچی تھی شاہ دولہ کو اُوڑھائی اور سبز عمامہ اپنے دست مبارک سے باندھ کر خرقہ پہنایا اور خطاب قطبِ الاسرارِ حبیب کے ساتھ سندِ خلافت مرحمت فرمائی اور عبد الغفور ابدال کو خدمت میں مامور فرمایا اور شاہ منور علی کو لائق ِمرتبہ صاحب مجازِ مرفوع الاجازت اولعزم والمرتبہ سمجھ کرآپ کے سپرد کر دیا۔
*شاہ دولہ کے چوہے*
شاہ دولہ کے چوہے کی اصطلاح ان مخصوص بچوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو شاہ دولہ کے مزار پر پائے جاتے ہیں، یہ مزار گجرات، پاکستان میں واقع ہے۔ سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں بعہد اورنگزیب عالمگیر دولے شاہ نام کے ایک نیک اور برگزیدہ بزرگ گجرات کے نزدیک قیام پزیر ہوئے، دولے شاہ سہروردی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں پرندے اور جانور بہت پسند تھے۔ ایک حکایت کے مطابق کئی بار وہ اپنے پسندیدہ جانوروں کے سر پر ایک مٹی کی ٹوپی رکھ دیتے تھے اور ان کے سروں کو مکمل ڈھانپ کر رکھتے تھے۔ ان کا آستانہ عام لوگوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ بانجھ عورتیں ان سے دعا کروانے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے حاضر ہوتیں تھیں۔ روایت ہے کہ دولے شاہ کی دعا سے وہ اکثر صاحبِ اولاد ہو جاتیں تھیں۔ بیشتر والدین پہلے بچے کو اس آستانے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ حکایت کی رو سے اگر والدین اس بچے کو دولے شاہ کے مزار پر وقف نہیں کرتے تھے تو ان کی ہونے والی ساری اولاد ہمیشہ چھوٹے سروالی ہی پیدا ہوتی تھی۔ روایت یہاں تک موجود ہے کہ اگر بچے کو اس آستانہ پر نہیں لایا جاتا تھا تو وہ بڑا ہو کر خود بخود یہاں پہنچ جاتا تھا۔ یہ بچے مختلف علاقوں میں بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرتے تھے۔
ان تمام پہلوؤں پر سنجیدہ تحقیق صرف برطانوی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کی ہے۔ اس کے علاوہ چند برطانوی افسران جو گجرات میں تعینات رہے، نے بھی ان بچوں کا بغور مشاہدہ کیا اور مختلف رپورٹس مرتب کیں۔ انڈین اور پاکستانی دانشور اس جانب بہت کم متوجہ ہوئے اور ان کا بطور محقق اس معاملے میں تجزیہ تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔
کرنل کلاڈ مارٹن (Col Clade Marten) 1839ء میں اس دربار پر پہنچا۔ اس نے چند خواتین کو اپنے بچوں کو دربار کے لیے وقف کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اُس کے مطابق یہ رسم بہت پہلے سے چلی آ رہی تھی۔ تاہم بچوں کی جسمانی حالت کے متعلق اس نے لکھنے سے گریز کیا ہے۔ 1866ء میں ڈاکٹر جانسٹن دولے شاہ کے دربار پر آیا، اُس کو وہاں نو بچے ملے۔ ان بچوں کی عمریں دس اور انیس برس کے درمیان تھیں۔ ان تمام بچوں کے سر بہت چھوٹے تھے اور وہ دولے شاہ کے چوہے کہلاتے تھے۔ ڈاکٹر جانسٹن وہ پہلا سائنس دان تھا جس نے بتایا کہ ان تمام بچوں کے سروں کو فولادی خود یا کسی اور میکینکل طریقے سے چھوٹا کیا گیا ہے۔ 1879ء میں ہیری ریوٹ کارنک (Harry Rivett Cornic) نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے لکھا کہ ہر سال تقریباََ دو سے تین بچوں کو دربار کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس نے معصوم بچوں کو چوہا بنانے کے متعلق لکھا کہ ان بچوں کے سروں کو میکنیکل طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے اور اُس میں مختلف حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا اور دھات سے بنے ہوئے خود بھی ان بچوں کو چوہوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
فلورا اینی اسٹیل (Flora Annie Steel) نے 1886ء میں ان بدقسمت بچوں کے متعلق لکھا کہ دربار پر یہ بچے بالکل تندرست اور صحت مند ہوتے تھے اور ان میں کسی کا سر چھوٹا نہیں تھا۔ مگر مقامی لوگوں کے چند گروہ ان تندرست بچوں کو پورے ہندوستان میں فروخت کر دیتے تھے اور ان کی جگہ چھوٹے سر والے بچے لے آتے تھے۔ اکثر والدین اپنے معذور بچوں کو ان گروہوں کے حوالے کر دیتے تھے کیونکہ یہ بچے ان کے لیے مکمل بوجھ تھے۔
کیپٹن ایونز نے 1902ء میں اس دربار پر بھر پور تحقیق کی۔ اس وقت تک یہ بچے 600 سو کے قریب ہو چکے تھے۔ اس نے بچوں کے سروں کو زبردستی چھوٹا کرنے کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ اُس کے بقول یہ ایک بیماری تھی اور اس طرح کے بچے شاہ دولہ کے مزار کے علاوہ پورے ہندوستان میں پائے جاتے تھے۔ اس نے لکھا کہ، اس طرح کے بچے Microcephalic کہلاتے ہیں اور یہ بچے اس نے برطانیہ میں بھی دیکھے ہیں۔ اس کے نزدیک دولے شاہ کا مزار اس مہلک بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے ایک سماجی پناہ گاہ ہے۔ مگر اس نے ان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کے متعلق بہت سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس نے بیان کیا کہ جو فقیر ان بچوں کو لے کر بھیک مانگنے کے لیے مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں۔ ان کا رویہ ان بچوں کے ساتھ انتہائی نازیبا اور غیر انسانی ہے۔
1902ء میں کئی بچوں کو تو سالانہ سترہ سے بیس 17-20 روپے کے عوض کرایے پر بھی دے دیا جاتا تھا۔ 1969ء میں محکمہ اوقاف نے اس دربار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور چوہے بنانے کے کام کو قانونی طور پر بند کر دیا۔ اس کے باوجود یہ عمل آج بھی جاری ہے[1] اور آج بھی دس ہزار سے زائد بچے اس مزار میں رہتے ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق گجرات سے ہے
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333