53

( تربیت اولاد (حصہ اول تحریر محمد ذیشان بٹ

( تربیت اولاد (حصہ اول
تحریر محمد ذیشان بٹ
نبی پاک صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ ہے کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لئے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔ انسان ہونا سب سے بڑا شرف ہے انسان میں بڑھوتی کا سلسلہ بھی انسانوں سے رکھنے میں ایک عظیم راز رکھا گیا ہے۔ صاحب ایمان ہونے کے بعد رب کی نعمتوں میں بڑی نعمت صاحب اولاد ہونا ہے ۔ اس نعمت کی قدر ان سے پوچھو جو اس سے محروم ہیں ۔ اس سلسلے میں ہمارے پا جی سر ادریس کا تبصرہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جب وہ بے اولاد تھے تو رب سے کہا کرتے تھے کہ مولا اولاد نہیں دینی تو نہ دے ، کسی ایسے جزیرے پر بھیج دے جہاں سب ہی بے اولاد ہو کوئی کسی سے یہ سوال نہ پوچھے ۔ ہر نعمت ہونے کے باوجود انسان کو نا مکمل ہونے کا احساس رہتا ہے ۔ اس کے برعکس زیادہ طبقہ وہ ہے جس کو بغیر مانگے ہی اولاد کی نعمت مل جاتی ہے اس لیے وہ اس کی قدر بھی نہیں کر پاتے۔
اور زیادہ توجہ ان کی مادی ضروریات پوری کرنے کی طرف رکھتے ہیں ۔
اس میں سب سے بڑی غلطی یا بے پرواہی اپنی اولاد کو وقت نہ دینا
یقین مانئے اپنی اولاد کی سب سے پسندیدہ شخصیت آپ خود ہوتے ہیں ۔ اگر بچہ نے دوست بنانا ہے یا عادات کو اپنا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے والدین کی طرف دیکھتا ہیں لیکن آپ کی بے رخی ، بلا وجہ کی مصروفیت ان کو دوسرے لوگوں کی طرف راغب کرتی ہے اکثر سادہ لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو ایسا نہیں تھا دوستوں نے اس کو خراب کر دیا تو آپ خود کیوں اپنے بچے کے دوست نہیں بنتے ۔ والدین کو کم از کم بچوں کے ساتھ اتنا تعلق تو رکھنا چاہیے کہ وہ دن بھر میں ہونے والے تمام اہم واقعات کو بغیر کسی جھجک کے اپنے والدین کو بتا سکیں ۔
دوسری بڑی غلطی یہ ابتداء میں بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دینا
صرف کسی بڑے اسکول یا اکیڈمی میں داخل کرا دینا کافی نہیں ، جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو مزید سختی کرنے سے معاملات خراب ہوتے ہیں اس کے علاوہ زیادہ تر بچے جو تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے ان کے پاس کوئی مقصد نہیں ہوتا ۔ عام طور پر عام لوگوں کا خیال ہے کہ بچے تعلیم بہتر روزگار کے لے حاصل کرتے ہیں ان کی خدمت میں امام غزالی کا قول عرض کروں کہ آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص علم اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس کے زریعے مال کمائے وہ اللّہ پاک کے غضب سے نہیں بچ سکتا ۔ حکومت ، علما اور اساتذہ کو چائیے کہ معاشرے میں آگاہی پیدا کرے کہ علم انسان کو پہچان دیتا ہے ، وہ دنیا میں آنے کا مقصد جان سکے ۔ خود خالق کائنات اپنی لاریب کتاب میں فرماتا ہے کہ کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟
اس کے علاؤہ والدین کی جانب سے اپنی خواہشات کا ان پر لازم کرنا اب ایک بچہ ناظرہ قرآن بھی ٹھیک نہیں پڑھ پاتا تو اس سے حافظ قرآن کا مطالبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے شروع سے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں اور ان کے رجحان کے مطابق ان کو تعلیم دلوائیں
تیسری بڑی اور اہم غلطی یا بے پروائی
صرف تعلیم جبکہ تربیت کا فقدان محترم والدین جیسا کہ پہلے بھی کہا آپ اپنے بچے کے آئیڈیل ہیں اس لئے جو اصول اپنے بچے میں کل چاہتے ہیں ان کو آج خود اپنائیں بغیر کسی وعظ و تقریر کے آپ کے بچے میں خود بخود پائیں جائیں گئے آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ لوگوں کی عزت کرے ، غیرت مند ہو ، نمازی ہو ، سچ بولے ، ایماندار ہو غیرہ تو آج ان سب باتوں کو اپنائیں کل آپ کے بچے میں خود موجود ہوں گی
جیسا کہ ہمارے بڑوں کے پاس تعلیم نہیں تھی مگر ان کے بڑوں نے ان کی بہترین تربیت ضرور کی تھی بڑے بڑے اصول بغیر سکول کالج گئے ہمارے بڑوں کی زندگی کا حصہ تھے جبکہ آج ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہے اس لئے اس میں کمی والدین کی خود بےعملی ہے
ایک دانا کا قول آپ کی نظرر کرتا ہوں کہ بچوں کے لیے بہتر دنیا چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے دنیا کے لئے بہتر انسان چھوڑ کر جائیں
عربی کے چند کلمات کے ساتھ اس سلسلے وار موضوع کو یہاں ختم کرتا ہوں
اپنے بچوں کے قریب رہا کرو
ان سے مشورہ کیا کرو ا
ان سے تبادلہ خیال کیا کرو
ان کے دل جیت لو اس سے قبل کہ آپ ان کو ہمیشہ کے لئے کھو دو
جاری رھے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں