*والدین سے صلہ رحمی*
ہفتہ 02 نومبر 2024
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
حضرت اسماء رضی اللّہ تعالٰی عنہا کا بیان ھے کہ میری والدہ اُس زمانہ میں مدینہ منورہ آئیں جب کہ رسول اللّہ ﷺ نے قریشِ مکہّ سے مُعاھدہ کر رکھا تھا، اُس وقت تک وہ مُسلمان نہ ھوئی تھیں بلکہ مُشرک تھیں ، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللّہ ﷺ میری والدہ آئی ھیں جو مُجھ سے کُچھ ملنے کی اُمّید وار ھیں ، کیا میں اُن سے صِلہ رحمی کا برتاؤ کروں ؟
( اور اُن کو حسبِ توفیق کُچھ دوں )
آپ ﷺ نے فرمایا ھاں اُن کے ساتھ صِلہ رحمی کرو۔
بُخاری، مُسلم، مشکوٰۃ ص 419
درحقیقت اسلام عدل و انصاف کا مذھب ھے، کُفر کی وجہ سے جو مذہبی دُشمنی ھو اُس کے ھوتے ھوئے ماں باپ کے کہنے پر کُفر و شرک اختیار کرنا یا کوئی دوسرا چھوٹا بڑا گُناہ کرنا یہ منع ھے مگر اُن کی مالی خدمت یا بدنی خدمت کرنے کی اسلام اجازت دیتا ھے، کہ اگر وہ ضرورت مند ھیں تو اُن پر خرچ کرو،
قُرآن مجید میں ارشاد ھے؛
” اگر وہ دونوں ( ماں ، باپ ) تُجھے مجبور کریں اس بات پر کہ میرے ساتھ اُن چیزوں کو شریک کرے جن کا تُجھے علم نہیں تو اُن کی فرمانبرداری نہ کرنا اور اُن کے ساتھ دُنیا میں اچھّے طریق سے گُزارش کرنا اور اُس کی راہ پر چلنا جو میری طرف رُخ کرے ( سورہ لُقمان )
ماں باپ کا بڑا حق ھے مگر آج کل لڑکے اور لڑکیاں ایسے ھوگئے ھیں کہ شادی ھوتے ھی ماں باپ سے ایسے قطع تعلق کر لیتے ھیں کہ جیسے جان پہچان ھی نہ تھی۔
الدعاء
اللّہ تعالٰی ھدایت دے اور ہمیں اپنے بڑوں کا احترام اور صلہ رحمی کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333