14

اب گنے کی دو ہزار من سے زیادہ فی ایکڑ والی پیدوار کی حامل قسم ایف ڈی پی 254 کی منظوری دے دی گئی۔ڈاکٹر ساجد الرحمن ڈائریکٹر جنرل

اب گنے کی دو ہزار من سے زیادہ فی ایکڑ والی پیدوار کی حامل قسم ایف ڈی پی 254 کی منظوری دے دی گئی۔ڈاکٹر ساجد الرحمن ڈائریکٹر جنرل

پاکستان کا شمار گنے کے زیر کاشت رقبہ اور پیداوارکے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔

لاہور(نمائندہ خصوصی)گلوبل ٹائمز میڈیا یورپ کے مطابق ایوب زرعی تحقیقاتی فیصل آباد کے شعبہ کماد کے زرعی سائنسدان کماد کی فی ایکڑ بہتر پیداوار کی حامل نئی قسم ایف ڈی پی 254متعارف کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہ قسم 2000من سے زائد فی ایکڑ پیداوار کے ساتھ 12.77شوگر ریکوری کی حامل ہے۔ پاکستان میں کماد کے کل کاشتہ رقبہ کے 90 فیصد پر زرعی تحقیقاتی ادارہ کماد، فیصل آباد کی متعارف کردہ اقسام کاشت ہورھی ہیں۔گنے کی فصل کوملکی معیشت میں اہم مقام حاصل ہے اور اسکا قومی جی ڈی پی میں 7 فیصد حصہ ہے۔ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر جنرل، ریسرچ، پنجاب، ڈاکٹر ساجد الرحمن نے اسلام آباد میں نئی اقسام کی منظوری بارے منعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ کے دوران کیا اس پروگرام میں شعبہ کماد کے زرعی سائنسدانوں ڈاکٹر اخلاق مدثر، ڈاکٹر محمودالحسن، ڈاکٹر عبدالمجید، ڈاکٹر محمد کامران ،ڈاکٹر نعیم فیاض، سید محمد ثقلین شاہ اور شہزاد افضل سمیت چاروں صوبوں کے زرعی سائنسدانوں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر محمد ساجد الرحمن نے کماد کی اس نئی قسم کی منظوری کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں گنے کی اوسط پیداوار 810 من فی ایکڑ سے زائد ہے جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فی ایکڑ اوسط پیداوا ر 709 من ہے۔کاشتکاروں کی گھریلو معیشت اور شوگر ملوں کی کامیابی کا دارومدار کماد کی فصل کی فی ایکڑ زیادہ پیداوار اور بہتر شوگر ریکوری پرمنحصر ہے۔۔ شعبہ کماد کے زرعی سائنسدانوں نے شبانہ روز کاوشوں کے ذریعے موجودہ منظور شدہ قسم ایف ڈی پی 254سمیت کماد کی33 اقسام متعارف کروائی ہیں۔پنجاب میں گذشتہ سال 3.15ملین ایکڑ سے زائد رقبہ پر کماد کی کاشت کی گئی جس سے 88.65ملین ٹن سے زائد چینی کا حصول ممکن ہوا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جدید مشینری کے استعمال سے کماد کی فی ایکڑ پیداوار اور شوگر ریکوری میں اضافہ کے متعلق نئے تجربات کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔شعبہ کماد کے زرعی سائنسدانوں نے اس اعلی سطحی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں گنے کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی اور مشینی کاشت کے فروغ کے لئے کاشتکاروں کو محکمانہ سفارشات پر عمل کرنا ہو گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ کماد کی نئی اقسام کی تیاری، کھلے سیاڑوں میں کماد کی کامیاب کاشت کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کی کاشتکاروں کی دہلیز تک منتقلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔زرعی سائنسدانوں نے کماد کی فصل کی بروقت آبپاشی،کیمیائی کھادوں کے متوازن و متناسب استعمال اورنئی اقسام کی شوگر ریکوری، شور زدہ اراضیات پر کماد کی کامیاب کاشت،بیماریوں اور ضررساں کیڑوں کیخلاف قوت مزاحمت اور قوت مدافعت کی حامل اقسام کو جانچنے کیلئے جدید ریسرچ کا عمل جاری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں