*ٹائٹل: بیدار ھونے تک*
*عنوان: امیر مسلک، دینی مراکز اور مجاہدین۔۔۔۔۔؟؟*
*کالمکار : جاوید صدیقی*
فقہ حنفی یا یوں کہہ لیجئے مسلک حنفی، حضرت امام ابو حنیفہ ؓ کی تعلیمات پر عمل پیرا اور تقلید کرنے والوں کو مسلک حنفی یعنی حنفیہ، حنفی یا حنفیائی بھی کہتے ہیں۔ امت مسلمہ میں اس مسلک کے پیروکاروں کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ھے۔ مسلک حنفی آج سے سو سال پہلے بھارت میں دو بڑے دارالعلوم جن میں اوّل دارالعلوم دیوبند دوئم دارالعلوم بریلوی کے نام سے حنفیہ مسلک، مسلک بریلوی اور مسلک دیوبندی میں منقسم ہوگئی تھی۔ آج پاکستان میں تبلیغی جماعت رائیونڈ کا ربط دیوبند جبکہ تبلیغی جماعت دعوت اسلامی کراچی کا ربط بریلوی سے بتایا جاتا ھے۔ یاد رھے کہ دین اسلام کی ترویج و فروغ میں چار آئماء کرام یعنی امامین کے نام بہت اہمیت کے حامل اور مشہور و معروف ہیں اور انکی شرعی و فقہی و دیگر اسلامی کتب کے سبب انہی چاروں امامین کے طریق کو اپنانے پر مسالک سے جانا پہچانا جاتا ھے۔ مسلک حنفی، مسلک شافعی، مسلک مالکی اور مسلک اہل تشیع قابل ذکر ہیں۔ بحرکیف تمام کے تمام امامین قابل احترام، معتبر و معزز اور علوم کی انتہائی بلندی پر فائز تھے، ان تمام امامین کی تقلید اپنے اپنے انداز اور مسلک کے تحت کی جاتی ھے۔ تمام امامین کا ایک ہی رشد و ہدایت کا راستہ رھا ھے وہ صرف دین محمدی ﷺ کی ترویج و فروغ پر مشتمل لیکن یاد رھے کہ دین اسلام میں مسالک کی گنجائش نہیں کیونکہ دین اسلام بناء مسالک کے آپ ﷺ کے ہاتھوں پھیلا اور پھیلتا رہیگا کیونکہ حضرت محمد بن عبداللہ المعروف امام زمانہ، امام مہدی علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو آپ تمام مسالک کا خاتمہ کریں گے، آپ امام زمانہ صرف وہی دین اسلام جو رسول پاک ﷺ نے اپنی امت کو دیا تھا اسی دین کا پرچار کریں گے گویا ریاست مدینہ اور نظام مصطفیٰ پوری دنیا میں یکساں پھیل جائیگا انشاءاللہ۔۔۔۔ معزز قارئین!! یاد رھے کہ امامین نے کبھی بھی دوسرے امام کو دائرہ اسلام سے دور نہ رکھا اور نہ ہی کافر و مشرک کے فتوے داغے۔ امامین ایک دوسرے سے علوم و آگاہی کا تبادلہ خیال بھی کیا کرتے تھے اور اختلاف رائے بھی۔ یہی وجہ ھے کہ دین کی تعلیمات و رہنمائی اور آگاہی کسی بھی امامین سے حاصل کی جاسکتی ھے نقطہ نظر اللہ سبحان تعالیٰ اور رسول خدا ﷺ کا قرب اور رشد و ہدایت حاصل کرنا رھا ھے۔ امامین نے دین محمدی ﷺ کے بنیادی اصولوں پر یکجا اتفاق کیا اور متفق رھے البتہ وہ باریک نقاط جنکا عوام الناس سے براہ راست تعلق نہیں، انہیں عوام الناس سے پوشیدہ ہی رکھا اور اس پر اپنے ہم منصب امام سے باریک بینی والے نقاط پر بحث و مباحثہ اور اختلاف برائے اصلاح قائم رکھا ، کبھی بھی اختلاف برائے اختلاف کو پسند نہ فرمایا۔ امامین کے زمانے کے بعد سے لیکر ابتک ہر دور میں امامین کے مقلدوں نے اپنے فی زمانہ امیر کا انتخاب اپنے امام کی تعلیمات کے تحت جاری رکھا جس میں دینی و روحانی باقائدہ تعلیمات مستند مدارس سے شرط رکھی۔ دوسرا یہ کہ فی زمانہ امیر کیلئے باعمل، با شریعت، باکردار، بااخلاق، سچا، ایماندار، دیانتدار، فقر و فاقہ، سادگی اور مکمل حقوق اللہ و حقوق العباد کی احسن ادائیگی کو لازم جز اور مشروط رکھا۔ تیسرا یہ کہ فی زمانہ امیر تبلیغ کیساتھ ساتھ جہد اور جہاد کیلئے اپنے بیان، تحریر اور میدان جنگ میں شہادت کے عظیم جذبہ کو ابھارتے ہوئے مجاہد تیار کرنا بھی فرائض منصب امیر میں شامل فرض کیا۔ یہ وہ تین عوامل لازمی مشروط ہیں جو نبی پاک ﷺ نے دین اسلام کے فروغ اور پھیلاؤ کیلئے کئے تھے جنکی پیروی و تعلیمات ہر فی زمانہ امیر پر لازم و ملزوم ہوتی رہی ھے خلاف ورزی سستی کاہلی اور انکاری گستاخ رسول ﷺ کے زمرے میں آتی ھے۔ معزز قارئین!! آج امت مسلمہ کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود چند مٹھی بھر کافروں، مشرکوں، اور لادینوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار رسوا اور شکست خور کیوں ہورہے ہیں جبکہ اللہ نے دولت اور طاقت سے بھرپور نوازا ھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جہاد سے دوری ھے اور سلطنت کے حاکم کے سامنے حق گوئی اور جہاد کی ترغیب سے منہ موڑنا اور حصول دولت و عیش حاکم وقت سے حاصل کرنا ھے۔ چند ایک امام کعبہ نے حاکم وقت کو غیر شرعی امور پر توجہ دلائی اور اسے باز رہنے کی تلقین کی تو یزید کی طرح حاکم وقت سعودی عرب نے انہیں شدید سزا سے گزارا لیکن ایمان یافتہ تھے کہ سزا تو قبول کرلی لیکن حق و سچ اور شریعت سے جدا نہ ہوئے لیکن بیشتر نے غیر شرعی امور پر چپ سادھ لی گویا مزاحمت کرنے کے بجائے مفاہمت کو ترجیح دی اور احساس دلایا کہ انکی ذات سے حاکم وقت کے اقتدار کو ذرا برابر جنبش نہ پہنچے گی اور انکی حمایت ساتھ رہے گی احادیث میں ایسے علماء و مشائخ کو علمائے سوئے کہا گیا ھے۔۔۔۔ معزز قارئین!! میں بات کررھا تھا مسالک کی تو اس وقت بھی یہی چاروں مسالک اپنی آب و تاب سے پوری دنیا میں متحرک ہیں۔ ہمارے ایک دوست محقق و معلم بھی ہیں کئی اسلامی کتب کے مصنف بھی انکا نام افتخار احمد قریشی ھے جبکہ تعلق میرپورخاص شہر سے ھے وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ”عرب ممالک کے علاوہ کئی عجمی ممالک بھی سنی اسلام کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ انہیں شیعہ نہیں کہا جاسکتا ہے!! اب ان سنی اسلامی ممالک میں ان کا ایک امیر بھی ہونا عین اسلامی اصول ہے!! سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان میں اک مخصوص سنی فرقہ اپنے امیر کو ساری دنیا کے سنی ممالک کا “امیر اہل سنت” کیسے پکار لیتے ہیں؟؟ ”جی ہاں امیر اہل سنت مولوی الیاس قادری!!“
جو نہ صرف کہیں کسی ادارے سے سنی تعلیم سے نا آشنا رہے بلکہ ان کا دائرہ عمل بھی اکثر جاھل سنی طبقے پر محیط ہے!! یہ لوگ نہ صرف تعلیم اسلام دشمن سمجھتے ہیں بلکہ ان کے یہاں تعلیم یافتہ لوگ بھی سنی اسلام مخالف سمجھے جاتے ہیں!!
ایسے طبقے کے امیر کو”امیر اہل سنت قرار دینا“اور امامین مسجد الحرام کے پیچھے صلواة الخمسه کی ادائیگی کو حرام سمجھنا کون سا اسلام سمجھا جاسکتا ہے؟ دوسری طرف امام الام آمین المسجدالحرام عبدالرحمٰن السدیس جن کے پیچھے ساری دنیا تمام مسالک اور فرقوں کے لوگ نماز ادا کرتے ہیں بیت الحرام میں صلواة ادا کرتے ہیں انہیں ”امیر اہل سنت“کیوں نہیں سمجھا جاتا؟؟ اگرچہ اس میں انکی کوئی ذاتی رغبت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی!! “۔۔۔ معزز قارئین!! جب میں نے افتخار احمد قریشی کو امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری کے متعلق بتایا کہ اللہ نے انہیں اس قدر مریدین عطا کئے ہیں جنکی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں تک جا پہنچی ھے اور دنیا بھر میں انکی جماعت دعوت اسلامی پھیل چکی ھے۔ میرے اس استفسار پر انھوں نے جواب دیا کہ سب سے پہلے اپنا علم و معلومات درست کرلیجئے کہ دعوت اسلامی مولوی الیاس قادری کی اپنی ذاتی جماعت نہیں تھی۔ دراصل مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم نے یہ اہلسنت کی تبلیغی جماعت بنائی تھی آپ جبتک حیات تھے تو اس وقت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے حکم پر سالانہ اجتماع کی تقریبات ترتیب دی جاتی تھیں، ان دنوں اہلسنت کے جید علماء و مشائخ مفتیان و پیر عظام کی بھی شرکت رہتی تھی لیکن مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کی انتہائی سیاسی مصروفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولوی الیاس قادری نے یہ جماعت ہائی جیک کرلی اور قبضہ کرکے اپنے من پسند ماتحت جانثاروں پر محیط ایک کمیٹی تشکیل دیدی۔ مولوی الیاس قادری کو ایک کمیونیٹی سے تعلق ھونے کے سبب فائدہ اور مضبوطی میسر آئی جو تاحال ھے بلکہ اب تو انھوں نے اپنے صاحبزادے کو جانشین یعنی بعد موت انہیں منصب سونپ دیا یعنی اب دعوت اسلامی مسلک اہلسنت بریلوی اس مولوی الیاس قادری کے گھرانے اور کمیونیٹی کی لونڈی بن چکی ھے، اہلسنت بریلوی کے جید علماء و مشائخ اس لئے خاموش ہیں کہ اگر لب کشائی کی تو اہلسنت جماعت بریلوی کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوگی۔ اس بابت میں نے جب سنی بریلوی علماء سے رابطہ کیا تو انھوں نے بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے مزید بتایا کہ اب اگر سچ و حق کی بات کی جائیگی تو ان کے لاکھوں کروڑوں مرید انکے عطا کردہ فتنہ کے سبب عالم اسلام کو ناتلافی نقصان سے دوچار کرسکتے ہیں۔ ان علماء نے یہ بھی اعتراف کیا کہ مولانا الیاس قادری نے کبھی خوابوں میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ اس قدر کھربوں رقم، عطیات، چندہ، خیرات، زکواة، فطرہ کے عوض ملیں گے اور ٹھاٹ بٹھاٹ زندگی سات نسلوں تک گزرے گی کیونکہ یہ اپنا ماضی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سنہ انیس سو پچاسی سے قبل خطیب مسجد ھونے کیساتھ ساتھ جھاڑو عطر وغیرہ بیچا کرتے تھے اور گھر میں اکثر و بیشتر پتلی دال پکا کرتی تھی مولانا الیاس قادری دل میں آج بھی نورانی صاحب کو دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں بھلا ھو اس نیک بخت شاہ احمد نورانی کا کہ جس نے مجھے اڑنا سیکھایا ورنہ آج بھی میں اور میری اولاد مسجد میں امامت کررھے ہوتے اور اسی دو کمروں میں زندگی بسر کررھے ھوتے۔ معزز قارئین!! مجھے بتایا کہ آج کھربوں، نربوں مالیت رکھنے والے مولوی الیاس قادری اپنے حکومتی احتساب یعنی آڈٹ سے بچنے کیلئے آئے روز کوئی نہ کوئی حکومتی نمائندہ و سیاسی رہنما کو دعوت دیکر مہمان نوازی کرکے اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ شریعت بناء جہاد مکمل نہیں، جہاد صرف جنگ میں ہی نہیں بلکہ ریاست کے غیر شرعی، غیر اسلامی اور غیر دینی امور کے خلاف آواز بلند کرنے کو بھی کہتے ہیں جو دعوت اسلامی کے امیر مولوی الیاس قادری نے نہ کبھی کیا اور نہ کسی کو بھی اس پلیٹ فارم سے کرنے کی اجازت دی گویا احکام شرعیہ مولوی الیاس قادری کے مرہون منت ہوگئے (نعوذ بااللہ، استغفراللہ)۔ معزز قارئین!! میری ایک معروف ترین مفتی صاحب سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے پاکستان کے دونوں تبلیغی جماعت یعنی اجتماعی مرکز رائیونڈ اور فیضان مدینہ کو بآور کرایا تھا کہ ریاست پاکستان و حکومت پاکستان میں غیر شرعی امور کو اجاگر کرتے ہوئے باز رکھیں تو الٹا ان مراکز نے تسلیم کرنے کے بجائے مفتی صاحب کیلئے شدید مسائل و مشکلات پیدا کردیں اسی سبب مجھ سے یہ کہہ کر خاموش ہوگئے کہ میں ان نام نہاد پیروں علماؤں جو جاہل اور اندھی عقل رکھنے والوں کو درست کرنے سے قاصر ہوں اور پھر فون بند کردیا۔ اسی طرح جب میں نے مزید علمائے و مفتیان کرام سے فون پر مولانا الیاس قادری کی دینی خدمات، اشاعت اور فروغ پر بات کی تو انھوں نے کہا کہ جو آج تک کوئی نہ کرسکا وہ الیاس قادری نے کر دکھایا میں نے پوچھا وہ کیسے تو انھوں نے بتایا کہ کیا کبھی کسی مسلک کے امیر و رہنما نے اللہ کے گھر کو اسکرینوں سے بھر دیا اور ریکارڈنگ کا سلسلہ جاری رکھا یہی نہیں ملک بھر کی اپنی مساجد میں اسکرین لگا کر اپنی خودنمائی اور نفس کی خواہشات کی تکمیل کی جبکہ مسجد جوکہ اللہ کا گھر ھے وہاں کا ادب و احترام کے حوالے سے بیشمار احادیث وارد ہیں اس نے سب کو روند ڈالا۔ اگر مسجد میں حفاظتی کمیروں تک محدود رہتے تو بہتر تھا لیکن اپنی ٹی وی چینلز کی ریکارڈنگ اور براہ راست نشریات کیلئے احاطہ مسجد استعمال کرنا کہاں کی شریعت و طریقت ھے۔ ان علمائے کرام نے مزید بتایا کہ جمعہ، جمعہ دو دن ہی ہوئے ہیں انکی جماعت کو بنے ہوئے۔ برسوں سے مکہ و مدینہ میں حفاظتی طور پر کمیرے لگائے گئے لیکن وہاں اس طرح کے تماشے و خرافات دیکھنے سننے کو نہیں ملیں جو یہ مسلک الیاسی نے کر رکھی ھیں۔ انھوں نے مزید سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کونسے دین محمدی ﷺ کی خدمت کررہے ہیں آج تک سود کے خلاف اعلان جنگ تک نہ کیا جو نظام سود کے خلاف صف آراء ہیں انکے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ تک نہیں کیا۔ انکا سب سے بڑا ڈھونگ یہ ھے کہ دین ﷺ کو ریاست سے جدا رکھو، کیا دین محمدی پوشیدگی یا جنگل و جنگلات کیلئے آیا۔ دین محمدی ﷺ ضابطہ حیات ھے اور تمام معاملات میں رہنما و آگاہی بھی ھے۔ یہ پڑھے لکھے با شعور ہوتے تو قرآن پاک پر تحقیقی یونیورسٹی قائم کرتے اور اللہ کے پسندیدہ دین، دین محمدی ﷺ کی اصل روح کو دنیا میں پھیلاتے۔ انکی جاہلانہ حرکتیں یہ فتنہ بازی، فتنہ انگیزی نہیں تو پھر کیا ھیں۔ معزز قارئین!! آج کے اس کالم کو لکھنے کا مقصد یہ ھے کہ بحیثیت ایک مسلمان ھم سب کو اللہ کی رسی سے مضبوطی سے تھامے رہنا ھے کسی بھی مسلکی تفرقہ فتنہ و فساد میں ہر گز نہیں پڑنا وگرنہ تم ہلاک کر دیئے جاؤگے۔۔۔ معزز قارئین!! دین کی تعلیمات ہر ایک مسلمان پر فرض عین ھے اس تیز ترین اور مصروف ترین دور میں علماء و مشائخ کو ھم عام مسلمانوں کو بنیادی فرائض و سنت تک ہی محدود رکھنا چاہئے کیونکہ باریکیوں کو عام مسلمان نہ سمجھ سکتا ھے اور نہ ہی سمجھنے کا وقت ھے اور خاص طور پر تفرقہ بازیوں، فتنہ و شر انگیزیوں سے عام مسلمان کو دور رکھیں کیونکہ اس طرح کے عوامل مسلمانوں کا ایمان، ذہن اور افعال بگڑ کرسکتے ھیں بہتر یہی ھے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں عالم اسلام بلخصوص پاکستان میں جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت، افادیت اور افضلیت کو اجاگر کرتے ہوئے مجاہدین اسلام، سرفروشان اسلام پیدا کئے جائیں تاکہ اسرائیل امریکہ سمیت دیگر غیر اسلامی ریاستوں کی ہمت نہ بن سکے کہ وہ نہتے مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کا قتل عام کا بازار گرم رکھیں۔ آج پوری دنیا عالم اسلام کی ایمانی کمزوریوں کے سبب چڑھ دوڑے ہیں عالم اسلام کی بقاء و سلامتی مسلکی جھڑوں سے نہیں بلکہ مجاہدوں کے جہاد سے ممکن ھے۔ آج جہاد کے جذبہ اور افادیت سے عاری مسلمان ممالک غیر مسلم ممالک کے غلام بن بیٹھے ہیں اسی سبب مسلمانوں میں غداروں کی تعداد بڑھتی جارھی ھے اور منافقین کی پیداوار میں اضافہ ہوتا نظر آرھا ھے۔ وطن عزیز پاکستان کی سلامتی امن اور خوشحالی اسی ضمن میں ھے کہ یہاں کے دینی مراکز سے مجاہدین پیدا کئے جائیں علماء و مشائخ، پیر عظام و مفتیان کرام عبادات و ریاضات کیساتھ ساتھ جذبہ جہاد کو سب سے زیادہ اجاگر کریں یاد رھے کہ قرآن و احادیث میں جہاد کی کئی اقسام کئی طریق اور کئی پہلو ہیں ہر سو عملی جامع پہنانا ہر مسلمان کا فرض ھے علامہ اقبال کے اس شعر سے اپنا کالم اختتام پزیر کررھا ھوں
”سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا“۔۔۔!!