26

کیا ہمیں معلوم نہیں کہ پیٹ کی بھوک کسی ہریالے جنگل کی مانند بار بار اگ آتی ہے

کیا ہمیں معلوم نہیں کہ پیٹ کی بھوک کسی ہریالے جنگل کی مانند بار بار اگ آتی ہے پیٹ کی بھوک اور ذایقے امارت غربت، اور سرحدوں کی قید کے اسیر نہیں ہوتے، دل کملے کی دیوانگی کی شدت کی کوی انتہا نہیں ہوتی، یار کو منانے والوں کو بھی یار کو منانے سے روکنا آسان نہیں ہوتا دنیا پیسے پہ ہی چلتی ہے مگر پیسہ کمانے کے لیے جن جایز اور ناجائز دھندوں میں دنیا اتاولی ہوی جاتی ہے، صبح سے شام تک جھوٹ، مکاری، مکر و فریب، ملاوٹ،ناپ تول میں کمی بیشی، غیر ضروری ذخیرہ اندوزی، دھوکہ دہی کے وہ وہ طریقے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، کاروبار حکومت اور کاروبار سیاست اسی جھوٹ کی دوکان پہ سجایا اور چمکایا جاتا ہے حقداروں کا حق دھڑلے سے چھین کے معاشرے کے ناسوروں کے منہ میں ڈال دیا جاتا ہے سچ بولنے والوں کی زبانیں کاٹ کر تختہ دار پہ لٹکا دیا جاتا ہے. امیروں اور غریبوں میں فرق ڈالنے والی رسی بہت ہی مضبوط ہو چکی ہے اب چاہ کے بھی اس حد فاضل کو عبور کرنا تقریباً ناممکنات میں شامل ہو چکا ہے. سرمایہ دارانہ نظام اپنے خونخوار نوکیلے پنجوں سے گدھوں کی مانند مردار انسانوں کا گوشت بھنبھوڑ نے کے ساتھ ان نیم مردہ انسانوں کا خون چوسنے سے نہ ہی چوکتا ہے نہ ہی ہچکچاتا ہے اور نہ ہی شرماتا ہے اور اس سر عام کی نا انصافی اور بے حیائی نے انسانیت اور انسانی قدروں کا سر عام وہ جنازہ نکال دیا ہے کہ لوگ نیکی اور اچھای کے اقوال کو اپنی زندگیوں سے نکال کر صرف امتحان پاس کرنے کی حد تک ہی محدود کرنے جوگے رہ گیے ہیں وہ زمانے قصہ پارینہ ہو چکے ہیں جب لوگوں کے سینے میں دل دھڑکتے تھے، لوگوں کو لوگوں کے دکھ درد نظر ہی نہیں آتے تھے محسوس بھی ہوتے تھے اور لوگ لوگوں کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے اپنا سکھ تیاگ کے ہلکان بھی ہوتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے خون سفید اور دل کالے ہو چکے ہیں
سیاہ دل اور سفید خون
کالے گورے لوگوں میں
دل کے تھوڑے لوگوں میں
کیا محبت ڈھونڈتے
کیا مروت ڈھونڈتے
کتنا دل کا خوں کرتے
خود کو بے سکوں کرتے
کالے گورے لوگوں کے
دل کے تھوڑے لوگوں کے
دل سیاہ کالے ہیں
اور
خون ہے سفید
لوگ لوگوں کے حقوق کی پایمالی کرتے کرتے کبھی پٹرول کی قیمتیں بڑھاتے اور پھر تھوڑی تھوڑی کم کر دیتے یہ دکھانے کے لیے کہ بہت عوام دوست ہیں پٹرول کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی ہر شے کی قیمت کو پتنگے لگ جانا بھی ایک عام سا معمول تھا مگر لمحہ فکریہ یہ تھا کہ جب پٹرول کی قیمت میں کمی ہوتی تھی تو چیزوں کی قیمتوں اور کرایوں میں کیا جانے والا اضافہ کم نہ ہوتا تھا اور جب پٹرول کی قیمت میں معمولی کمی ہوی اور ساریا اپنی سوزوکی لے کے ماری ماری پٹرول پمپ پہ پٹرول ڈھونڈتی پھرتی تھی اور پمپ والے پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کر کے لوگوں کو ذلیل و خوار ہونے کے لیے در بدر ٹھوکریں کھاتا دیکھ کے خوش ہوتے تھے ہاں نمازوں کی ادای میں کوتاہی نہ کرتے تھے حقوق العباد میں ڈنڈی مارنے والوں کو آسمانوں کی وسعت سے خدا بھی للکارتا تھا کہ چیزیں اور ضروریات اشیاء کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں کرتے ہو پٹرول تو سستا ہو گیا ہے؟
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں