*انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکولوجی کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان بلڈنگ لائف اسکلز اِن یوتھ کا انعقاد*
*ہم اپنا بنیادی تعلیمی نظام بہتر کئے بغیر بہترین انسان پیدا نہیں کرسکتے اور نہ ہی انکی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد عراقی*
*ہمیں اپنے کردار، افکار اور عمل کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم بہتر مسلمان ہیں، اسی صورت ہم اپنی شناخت کے بارے میں بات اور دنیا کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں۔ڈاکٹر خالد عراقی*
کراچی (رپورٹ: جاوید صدیقی) جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ ہمیں دنیا کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی کرپشن ہے، ہم کتنا سچ بولتے ہیں اور یہ سسٹم میرٹ کو کتنا پروموٹ کرتا ہے۔ ہمیں اپنے کردار، افکار اور عمل کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم بہتر مسلمان ہیں، اسی صورت ہم اپنی شناخت کے بارے میں بات اور دنیا کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں۔ہم اپنا بنیادی تعلیمی نظام بہتر کئے بغیر بہترین انسان پیدا نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کی بہتر تربیت کرسکتے ہیں۔ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے بنیادی تعلیمی نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرے کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے جس میں سب کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار ہو۔ منشیات و دیگر چیزوں کے حوالے سے صرف قانون سازی کافی نہیں، ہم بحیثیت والدین اپنے بچوں کی غلطیوں کی پردہ پوشی کررہے ہوتے ہیں بجائے اسکو دور کرنے کے جس کے بچوں اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، بچوں کی تربیت میں والدین کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ایک اچھا شہری بننے کیلئے خود اعتمادی اور نالج ناگزیر ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکولوجی جامعہ کراچی کے زیر اہتمام اور آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی، ورلڈ بینک اور ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے اشتراک سے چائنیز ٹیچرز میموریل آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں منعقدہ سیمیناربعنوان:”بلڈنگ لائف اسکلز اِن یوتھ“سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ زیبسٹ کے کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر مظفر علی نے کہا کہ نشہ ایک دائمی دوبارہ پیدا ہونے والی دماغی بیماری ہے، اگر ہم اسکو صرف معاشرتی برائی اور بری عادت کہتے رہیں تو ہم کبھی بھی اسکے علاج کی طرف نہیں جائیں گے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پان، نسوار، چالیہ و دیگرز بھی منشیات کی طرح نقصان دہ ہیں۔ اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت اپنی مرضی سے منشیات کے استعمال کو ترک کرسکتے ہیں جبکہ حقائق اسکے منافی ہے کیونکہ انسان منشیات کا استعمال اپنی مرضی سے شروع کرسکتا ہے لیکن چھوڑ نہیں سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیند کی دوا استعمال کرنے والوں کی ادویات میں تواتر کیساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے کیونکہ انہیں اسکی لت پڑجاتی ہے۔ منشیات کا استعمال تناؤ میں کمی نہیں بلکہ اس میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ چھتیس فیصد منشیات میں مبتلا افراد نفسیاتی بیماری اور نفسیاتی بیماری کا شکار افراد منشیات کی استعمال کیطرف جاسکتے ہیں۔ ہم بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں جبکہ خود ان ہی کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں جس سے بچوں کو دوہرا پیغام جاتا ہے اور اسکے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔ اینکر پرسن رضوان جعفر نے کہا کہ ہمیں دوسروں کی تنقید پر توجہ دینے کے بجائے مزید کام کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ صلاحیتوں کے حامل افراد کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دنیا کی ہم سے آگے ہونے کی وجہ انسانیت، انصاف، مساوات اور سچ پر مبنی معاشروں کا قیام ہے۔ پہلے لوگ اشرافیہ کیخلاف ہوتے تھے لیکن بدقسمتی سے آج ہم اشرافیہ کیخلاف نہیں بلکہ خود اشرافیہ بننا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپکو تلاش اور اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالر بیہوریل ہیلتھ اسپیشلسٹ و ڈیپارٹمنٹ آف فیملی میڈیسن آغاخان اسپتال کی حرا مختار نے کہا کہ پوری دنیا کی سولہ جبکہ پاکستان کی پچاس فیصد سے زائد آبادی تیس سال یا اس سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، ہمیں اس نوجوان نسل کو انکی ضروریات کیمطابق مواقع فراہم کرنے ہونگے تاکہ یہ معاشرے کی ترقی کیلئے اپنا مثبت اور کلیدی کردار ادا کرسکیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی میں تناؤ اور جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جذبات کو روکا نہیں جاسکتا لیکن اس کو مینج کیا جاسکتا ہے۔ مسائل کو ہمیشہ اپنے آپ سے الگ رکھ کر دیکھیں تو اسکا حل نکل سکتا ہے۔ ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی ڈاکٹر سیدہ حورالعین نے کہا کہ ہم کیوں کہتے ہیں کہ پاکستان میں بے یقینی ہے؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ادارے، ہماری جامعات اور تمام اسکولز سسٹم مناسب اور صحت مند اذہان تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں جو آنے والی نسلوں کیلئے اچھے رہنما بن سکیں۔ دنیا پر حکومت کرنے سے قبل اپنے اوپر حکومت کرنا سیکھیں،ہمیں کسی کے روکنے سے روکنے کی نہیں بلکہ مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ منشیات کے استعمال میں اضافے کی ایک بڑی وجہ آگاہی کا فقدان ہے اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ کی اس لت میں زیادہ تعداد مبتلا ہونے کی وجہ بھی آگاہی کا فقدن اور اس کو برانہ سمجھنا ہے۔ رئیس کلیہ علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر مسرت جہاں یوسف نے اس طرح کے سیمینار کے انعقاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو بیرون ملک جانے کے بجائے اپنے ملک میں ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہئے۔ انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سلمان شہزاد نے تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ پیش کی اور آئندہ کے لائحہ عمل سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ قبل ازیں پروفیسر ڈاکٹر ثوبیہ آفتاب نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا جبکہ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکولوجی جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ علی نے کلمات تشکر ادا کئے۔