*سرکاری احکامات میں غنڈہ ٹیکس اور پرچی بھتہ*
*تحریر: جاوید صدیقی*
ایک وقت وہ بھی تھا جب سیاسی تنظیموں سے پناہ اور سرپرستی حاصل کرنے والے ہمارے معاشرے کے غنڈے بدمعاش بھتہ خور پرچی باز تاجروں اور مالداروں سے بھاری رقم وصول کرتے تھے۔ ہماری افواج نے آپریشن کرکے اس نظام کا قلع قمع تو کردیا لیکن پھر انہیں سرپرست اعلیٰ سیاستدانوں حکمرانوں، اشرفیہ اور پارلیمیٹیرین نے بڑی چلاکی و ہوشیاری سے ایک ایسا پلان مرتب کیا کہ جس سے کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی اور زرد قانونی راہداری سے ریاست، ملک اور قوم دشمن بل پاس کروائے جنکے ذریعے سرکاری بلوں میں جبراً بھتہ، پرچی اور ڈاکہ کو عجیب عجیب نام سے منسوب کرکے ٹیکس کی صورت میں وصول کرنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ سنہ انیس سو چودہ سے شروع کیا جو تاحال جاری ھے اور اس کی معیاد سنہ دو ہزار چوون تک پہنچے گی۔ اس سارے گھناؤنے کھیل میں میڈیا بھی شامل حال رھا ھے۔ اس کی ایک وجہ میڈیا چینلز کا جانبدار رویہ بھی رھا ھے، خاص طور سے اے آر وائی کا جھکاؤ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی طرف ہمیشہ سے رھا تو جیو کا پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اسی بلترتیب سے دیگر چینلز نے بھی سیاسی حمایت کیساتھ مراعات اور قومی دولت کو مختلف انداز سے سمیٹنے کیلئے ذرائع استعمال کئے، یہ بھی حقیقت ھے کہ آج الیکٹرونک میڈیا شائد پانچ فیصد غیر جانب دار ملے گا وگرنہ پچانوے فیصد کا جھکاؤ یا رغبت و مفادات کی خاطر کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے جڑا نظر آئیگا۔ خیر میں بات کررھا تھا کہ ان بدمعاشیہ سیاستدانوں کی جنھوں نے بجلی کے بلوں میں فکس چارج سمیت بیشمار چاجز لاگو کئے۔ یاد رھے کہ سابق وزیر پاور نے دو ہزار چوبیس میں ان سب سیاستدانوں اور حکمرانوں کی چوری، دھوکہ دہی اور لوٹ مار بمع ثبوت عیاں کردی۔ گزشتہ چند سالوں سے انہی بدمعاشیہ سیاستدانوں و حکمرانوں نے گیس کے بلوں میں بھی فکس چارج کے نام سے لوٹنا شروع کردیا ھے۔ حیرت و تعجب کی بات یہ ھے کہ ملک گیر اس ظالمانہ جرائم کے باوجود ہمارے جسٹس صاحبان بڑی پر سکون نیند کررھے ہیں گویا انکے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ اس بابت پاک آرمی “گرینڈ آپریشن مالیات” اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے چیف جسٹس “از خود نوٹس” لیتے اور ان تمام ناسوروں کا قلع قمع کرتے کیونکہ ان بدمعاشیہ حکمرانوں و سیاستدانوں نے پاکستان مخالف قوتوں کی سہولتکاری کرکے ملک کو مالی، معاشی، اقتصادی اور روزگار کے طور پر مکمل کھوکھلا، مفلوج کرکے رکھ دیا ھے۔ یہ عمل پاکستان کے آئین و دستور اور قرآن پاک کی رو سے غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اب اس نظام جمہوریت کا خاتمہ ناگزیر ھوچکا ھے اس نظام کے بدل قائداعظم محمد علی جناح کے حکم کے مطابق اسلامی نظام رائج فی الفور کردینا چاہئے اور پاکستان کا نام “اسلامی مملکت پاکستان” رکھ دیا جائے۔ اسی میں ملک و قوم کی بقاء و سلامتی اور خوشحالی شامل ھے بصورت یہ بدمعاشیہ سیاستدان و حکمران اس ملک کے ٹکڑے در ٹکڑے کرکے رکھ دیں گے۔ یاد رھے کہ سب سے پہلے من حیث القوم ھم سب کا مقدم و معتبر ریاست و ملک ہونا چاہئے۔ یہ پارلیمینٹیرین آئین و دستور میں مسلسل ترمیم کرتے چلے آرہے ہیں جو سب سے بدتر اٹھارہ ویں ترمیم ھے۔ یہ سراسر انہیں اشرفیہ، سیاستدانوں، حکمرانوں اور ایلیٹ جماعت کیلئے سائبان ھے، جس میں ان کے کالے کرتوت بآسانی چھپائے جاسکتے ہیں اور قانونی سپورٹ بھی حاصل کرسکتے ہیں اسی لئے سب سے پہلے اٹھارہ ویں ترمیم کا خاتمہ ناگزیر ھے اور اسے فی الفور کالعدم قرار دیدیا جائے۔ پالیمینٹرین کی اکثریت نے آصف علی زرداری کے حکم پر اس ترمیم میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ مقتدر قوتوں کو پاکستان ریاست اور قوم کی بقاء و سلامتی کیلئے سنجیدہ فیصلوں کی اشد ضرورت ھے تاخیر سے نتائج منفی اور بدترین سامنے آئیں گے وگرنہ مورخ ان بدمعاشیہ کیساتھ ساتھ مقتدر قوتوں کو بھی انکا سہولتکار لکھے گا۔ اللہ خیر کرے جنرل پرویز مشرف نے اپنے آخری لکمات کہے تھے کہ “اللہ پاکستان کا محافظ ہو”۔ جنرل حمید گل بھی اس نظام جمہوریت اور بدمعاشیہ کو شدید ترین ناپسند کرتے تھے اور انہیں اس ریاست و ملک و قوم کیلئے ناسور قرار دے چکے تھے۔۔۔۔!!