“ بے شعور اور بد نصیب قوم“
باچا خان نے سو سال قبل پختون قوم میں شعور بیدار کرنے کے لئے سینکڑوں سکول قائم کئے ۔لیکن ریاستی پروپیگنڈے کا کمال کہ غدار ٹھہرے، سرحدی گاندھی کہلائے ۔
اس کے پیروکاروں نے ایک مخلوط حکومت میں رہتے ہوئے32 یونیورسٹیاں ، درجنوں کالجز اور سینکڑوں سکول قائم کئے ۔
لیکن اسٹبلشمنٹ نے پہلے ففتھ جنریشن وار میں ہی انہیں سیاست سے مکمل ناک آوٹ کرکے ایک نوسر باز کو اس قوم کے سر پر سوار کیا۔
گزشتہ گیارہ سال سے وہی نوسرباز اس صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے جو بھڑکیں مارتا تھا کہ
جس دن میری حکومت آئی اس سے اگلے روز تمام گورنر ہاؤسز کو بلڈوز کرکے یونیورسٹیوں میں تبدیل کروں گا۔
کسی گورنر ہاؤس سے کوئی یونیورسٹی کیا بننی تھی
البتہ بنی ہوئی یونیورسٹیوں اور اس کی زمیںنوں کو فروخت کیا جارہا ہے۔
جب نواز شریف میگا پراجکٹ لانچ کررہا تھا یہ نوسر باز ڈھولک بجاتا تھا کہ دیکھو قومیں میٹرو اور موٹر ویز سے نہیں انسانوں پر سرمایہ کاری سے بنتیں ہیں ۔
لالہ سراج الحق بھی اس درباری راگ میں ہم آواز ہوتے تھے،
اور آج مسلسل گیارہ سال حکومت کرنے کے بعد انسانوں پر سرمایہ کاری کی یہ صورت حال ہے کہ
خیبر پختونخواہ کے
2 ہزار 32 سرکاری سکولوں کی چاردیواری نہیں،
2 ہزار414 سرکاری سکولوں میں بجلی نہیں،
1 ہزار 149 سرکاری سکولوں میں پانی کی سہولت نہیں،
اپر دیر سوات اور کوہستان میں نہ ہسپتال ہیں اور نہ سڑک اور پل ، لوگ آج بھی اپنے مریضوں کو چارپائی پر ڈال کر کئی کئی گھنٹے پیدل سفر پر مجبور ہیں ۔
لیکن پریشانی کی کوئی بات ، پختون قوم اگلے انتخابات میں بھی اسی فراڈیئے کو ووٹ دیں گے کیونکہ ان کا یقین کامل ہے کہ اس مداری نے انہیں شعور دیا ہے۔
افسوس ایسی قوم پر اور لعنت ایسے شعور پر