*ٹائٹل : بیدار ھونے تک*
*ایک جانب سورة الحدید دوسری جانب سائنسدانوں کی تحقیق لوہا ۔۔۔۔۔!!*
*کالمکار: جاوید صدیقی*
سائنسں دانوں کہنا ھے کہ لوہا
اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔ کیونکہ لوہے کے پیدا ہونے کیلئے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ھوتی ہے جو ہمارے نظام شمسی کے اندر بھی موجود نہیں۔ لوہا صرف سوپر نووا کی صورت میں ھی بن سکتا ہے یعنی جب کوئی سورج سے کئی گنا بڑا ستارہ پھٹ جائے اور اسکے اندر سے پھیلنے والا مادہ جب شہاب ثاقب کی شکل اختیار کرکے کسی سیارے پر گرجائے جیسا کے ہماری زمین کے ساتھ ہوا۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ہماری زمین پر بھی لوہا اسی طرح آیا تھا۔ اربوں سالوں پہلے اسی طرح شہاب ثاقب اس زمین پر گرے تھے جن کے اندر لوہا موجود تھا۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے یہی بات قرآن میں بیان فرمائی ہے، چودہ سو سال پہلے اس بات کا وجود تک بھی نہیں تھا کہ لوہا کیسے اور کہاں سے آیا؟ قرآن کی ستاون ویں سورة کا نام الحدید ہے جس کے عربی میں معنی لوہے کے ہیں۔ لوہے کے نام پر پوری سورة موجود ہے اور اسی سورة کی آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ: “اور ہم نے لوہے کو اتارا، اس میں سخت قوت اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔” سورة الحدید، آیت نمبر پچیس۔ قرآن میں موجود یہ سائنسی حقائق اس بات کی دلیل ہے کہ یہ رب کا سچا کلام ہے جو آخری نبی، پیغمبر اور رسول حضور اکرم محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل ہوا جو اُمی کہلاتے ہیں۔ سورة الحدید آیت نمبر چار ” وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے اور تم جہاں کہیں ھو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ھو خدا اس کو دیکھ رھا ہے۔” اس سے بھی زیادہ حیران کردینے والی بات یہ ہے کہ لوہا زمین کے بالکل درمیان میں ہے اور لوہے کی بدولت مقناطیسی لہریں زمین کے گرد پیدا ہوتی ہیں جس سے زمین پر سورج کی الٹرا ریز اثر انداز نہیں ہوسکتیں اور یہ وائرلیس کمیونیکیشن میں بھی مدد فراہم کرتی ہیں۔ اب حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ قرآن میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں اور سورہ الحدید کا نمبر ستاون ہے یعنی سورة الحدید عین قرآن کے بیچ میں ہے اور لوہا اسی طرح زمین کے درمیان ہے یعنی اللہ نے اس سورة کی ترتیب بھی اسی حساب سے رکھی جو کہ ایک کرشمہ سے کم نہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ لوہے کے بنا زمین پر زندگی تقریبا نا ممکن تھی۔ لوہا ہیموگلوبن کی صورت میں ہمارے خون میں موجود ہے جو کہ خون میں آکسیجن کو پورے جسم پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ عربی زبان کے اٹھائیس ٢٨ حروف ہیں اور ہر حرف سے کوئی عدد منسوب ہے. حروف کو مختلف ترتیب سے لکھا جاتا ہے. سب سے زیادہ عام طریقہ درج ذیل ہے۔ الف سے ط یعنی ا ب ج د ہ و زح اور ط تک ایک سے نو عدد شمار کئے جاتے ہیں اسی طرح بالترتیب ی سے ص یعنی ی ک ل م ن س ع ف اور ص تک کیلئے اعداد دس سے نوے پھر ق سے ظ تک یعنی ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ کیلئے اعداد سو سے نو سو تک اور آخر میں غ ایک ہزار تعداد میں گنتی میں لیا جاتا ہے۔ اس طرح الحدید میں ا ل ح د ی د الفاظ ہیں۔ اسکے ابجد الفاظ درج زیل ہیں۔ ١+٣٠ +٨ + ٤+ ١٠+٤ = ٥٧ الحدید سورة کا نمبر بھی ٥٧ ہے۔ اب آتے ہیں لفظ حدید کی طرف۔ حرف حدید میں چار الفاظ ہیں ح د ی د۔ اسکا ابجد نمبر ہے۔ ٨+٤+١٠+٤=٢٦ اب آپ سوچیں گے کہ اب ٢٦ کیا چیز ہے؟ یہ لوہے کا ایٹامک نمبر ہے۔ سورة الحدید میں رکوع کی تعداد ٤ ہے جبکہ آئرن کے آئسوٹوپس کی تعداد بھی ٤ ہے۔ ھماری زمین میں سب سے زیادہ لوہا زمین کی سب سے اندرونی تہہ میں پایا جاتا ہے. اندرونی تہہ میں اسی فیصد لوہے اور بیس فیصد نکِل پر مشتمل ہے. زمین کی اس تہہ یعنی اندرونی تہہ کی پیمائش موٹائی چوبیس سو پچھہتر کلو میٹر ہے جبکہ سورة الحدید میں حروف کی تعداد بھی چوبیس سو پچھہتر بنتی ہے. سورة الحدید قران مجید کی ستاون ویں سورة ہے جبکہ سائنس دانوں کے مطابق اندرونی تہہ کا درجہ حرارت بھی ستاون سو کیلون یعنی چوون سو ستائیس ڈگری سنٹی گریڈ ہے جبکہ آئرن کے ایک آئسوٹوپ کا ماس نمبر بھی ٥٧ ہے. ایک ستارا کا ایندھن ہائیڈروجن گیس ہوتی ہے اور گریوٹی کی وجہ سے ستارا کے رکز میں فیوژن ری ایکشن شروع ھوتا ہے اور ہائیڈروجن ایٹم دوسرے ایٹم سے ملکر ہیلیئم بناتی ہے جب کسی ستارا کے تمام ہائیڈروجن ختم ہوجاتی ہے تو اس کا ایندھن ہیلیئم ھوتا ہے اور ہیلیئم کے آئٹم فیوژن ری ایکشن سے نائیٹروجن اور پھر آکسیجن بناتے اور پھر آخر میں لوہا بنتا ہے جب کسی ستارا میں لوہا پیدا ہونا شروع ہوجائے تو وہ ستارا مرجاتا ہے اور بلاسٹ کرکے لوہا کائنات میں چھوڑ دیتا ہے۔ زمین پر موجود لوہا کس مرے ہوئے ستارے سے آیا ہے۔ جس کو قرآن نے چودہ سو سال پہلے بیان کردیا۔ اسلام اور قرآن کی حقانیت جدید سائنس دن بدن عیاں کررہی ہے مگر پھر بھی ہم اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ بیشک قرآن حکیم ایک زندہ و جاوید معجزہ ھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان سمیت امت مسلمہ سب کچھ جاننے اور آگاہی کے باوجود اس قدر گمراہ اور شیطانیت میں اوندھے ہوچکے ہیں کہ اللہ سبحان تعالیٰ کی جانب سے کھلی نشانیاں پیش کرنے کے باوجود اندھے اور جاہلیت سے باہر نہیں نکل رھے اور دین سے مسلسل دوری اختیار کر بیٹھے ہیں۔ ھم جیسے مسلمانوں کیلئے ہی رب کے فرمان کا مفہوم کچھ اس طرح سے ھے کہ بیشک انسان خسارے میں ہے، گھاٹے میں ھے، شدید غفلت اور گمراہی میں ھے کہ وہ سب نشانیاں دیکھنے کے باوجود خود کو سنبھالتا نہیں، دنیا کی محبت، حرص دولت اور نفسانی خواہشات میں اوندھا پڑا ھے۔ استغفر اللہ ربی کل من ذنب و اتوب الیہ۔