*آئی پی پیز کے ساتھ 2017 ء میں ختم ہونے والے معاہدوں کی بغیر سوچھے سمجھے نہ صرف تجدید بلکہ ایک معاہدے کی 2024 ء میں پچھلی تاریخوں میں تجدید کی گئی۔ڈاکٹر صابر*
*مستقبل قریب میں بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی، کیونکہ حکومت نے پیٹرول اور بجلی کو آمدن کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عامر صدیقی*
*بجلی کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ اضافے نے کراچی کی ایک بڑی آبادی کو خط غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ سہیل*
کراچی (رپورٹ : جاوید صدیقی) سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر ایس پی ڈی سی کے ڈاکٹر صابر نے کہا کہ ذاتی مفادات پر عوامی مفادات کو ترجیح دیئے بغیر بجلی کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مقامی کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے کوئلہ برآمد کرکے اس سے بجلی پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے آئی پی پیز کے ساتھ سنہ دو ہزار سترہ میں ختم ہونے والے معاہدوں کی بغیر سوچھے سمجھے نہ صرف تجدید کی بلکہ ایک معاہدے کی سنہ دو ہزار چوبیس میں پچھلی تاریخوں میں تجدید کی گئی جو لمحہ فکریہ ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ آئی پی پیز ایک یونٹ بجلی بھی فراہم نہیں کررہے ہیں لیکن انہیں رقم پوری اور بروقت ادا کی جارہی ہے۔ زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے، بدل گیا ہے لیکن ہم اب بھی بدلنے کو تیار نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر جامعہ کراچی کے زیر اہتمام اور اتالیق فاؤنڈیشن کے اشتراک سے سینٹر ہذا میں منعقدہ میڈیا بریفنگ بعنوان: ”پاکستان میں توانائی کا بحران اور آئی پی پیز: کس طرح اوور بلنگ معیار زندگی اور حل کے راستوں کو متاثر کرتی ہے ” سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں مستقبل قریب میں بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی، کیونکہ حکومت نے پیٹرول اور بجلی کو آمدن کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ ماضی کی حکومتیں ہوں یا موجودہ سرکار سب نے آئی پی پیز کو فائدہ پہنچانے کیلئے ملکی خزانے کو شدید نقصان پہنچانے کیساتھ ساتھ عوام کیساتھ بھی کھلواڑ کیا ہے اور عوام کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود بھی حکومت آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے غیر منصفانہ معاہدوں پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں۔ ڈاکٹر عامر نے مزید کہا کہ ملک میں سو سے زائد آئی پی پیز ہونے کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں کمی کے بجائے اس میں تواتر کیساتھ اضافہ ہورہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ اس وقت پاکستان میں ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود لوڈشیڈنگ اور قیمتوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں کا سلسلہ سنہ انیس سو چورانوے میں شروع ھوا اور اس پر نظرثانی کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیز کو ڈالرز میں رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے جس سے لگتا ہے کہ شاید ہم بجلی بھی مقامی سطح پر بنانے کے بجائے درآمد کررہے ہیں۔ اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر جامعہ کراچی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ سہیل نے آئی پی پیز کیساتھ ہونے والے معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان معاہدوں میں صارفین کے بجائے آئی پی پیز کے مفادات کو مقدم اور ان کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے، انکی کارکردگی اور پیداوار صفر یا نہ ہونے کے برابر ہونے کے باوجود انکو پوری رقم فراہم کی جائے گی جو عوام کو نچھوڑنے کیساتھ ساتھ حکومتی خزانے پر بھی ایک بوجھ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیز کیساتھ ہونے والے معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لینے، آئی پی پیز کو قومیانے اور کے الیکٹرک کو الگ الگ جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ سہیل نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں تواتر کیساتھ اضافے اور سلیبوں میں ردوبدل نے کراچی کی ایک بڑی آبادی کو خط غربت کی طرف دھکیل دیا ہے اور بدقسمتی سے حکومتی سطح پر آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے غیر منصفانہ معاہدوں کے نتائج کو سنہ دو ہزار چونتیس تک بھگتنا پڑے گا۔ انہوں نے کراچی میں بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کا تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سنہ دع ہزار اٹھارہ سے اب تک بجلی کی قیمتوں میں سو فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے اور مستقبل میں مزید اضافہ ہوتا رہیگا۔ اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر جامعہ کراچی کے ایک اسکالر راؤ اسد نے کہا کہ انہوں نے کے الیکٹرک بجلی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں کیونکہ کے الیکٹرک ڈیمانڈ کے مطابق بجلی پیدا کرنے سے قاصر ہے اور وہ اس کمی کو لوڈشیڈنگ کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں تواتر کیساتھ اضافہ کیا جارہا ہے لیکن اس کی منصفانہ تقسیم کو یقینی نہیں بنایا جارہا ہے۔ قبل ازیں ڈائریکٹر اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر پروفیسر ڈاکٹر نورین مجاہد نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ نظامت کے فرائض انسٹی ٹیوٹ ہذا کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اضغر علی انجام دیئے جبکہ اتالیق فاؤنڈیشن کے سی ای او شہزاد قمر نے کلمات تشکر ادا کئے۔