68

قوم کو خودار بنائیں بھکاری نہیں ازقلم غنی محمود قصوری

قوم کو خودار بنائیں بھکاری نہیں

ازقلم غنی محمود قصوری

ہمارے ہاں ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے حکمران عوام کو نا تو شعور دیتے ہیں نا ہی سہولیات بس جسطرح خود ان کو مانگنے کی عادت ہے بالکل اسی طرح عوام کو بنانے پر تلے ہوئے ہیں
دوسرا بڑا ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ غریب کیلئے چند سہولیات جو دکھلاوے کے طور پر دی جاتی ہے وہ بھی سیاسی سطح پر ملتی ہیں جو حکومت میں ہوتا ہے اس کے حمایتی اس سے مستفید ہوتے ہیں باقی بیچارے منہ دیکھتے رہتے ہیں اور اپنی پارٹی کی گورنمنٹ بننے کی دعا اور تگ و دو کرتے ہیں تاکہ ان کو بھی کچھ نا کچھ مل سکے

ہمارے ملک میں مس مینجمنٹ بہت ہے یعنی ہم انتظامی امور درست طریقے سے نہیں کر پاتے یاں پھر ایسا کہہ لیں ہم درست کرنا ہی نہیں چاہتے تاکہ جو ہمارے لیڈران کے دکھلاوے کے احسانات تلے دبے ہوئے ہیں وہ دبے ہی رہیں اور ہماری جماعتوں اور لیڈران کے نعرے لگتے ہی رہیں
ماہ جون میں وفاقی بجٹ میں
بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے لئے 27 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور اس پروگرام سے استفادہ حاصل کرنے والوں کی تعداد 93 لاکھ سے بڑھا کر 1 کروڑ کر دی گئی ہے
یعنی کہ ملک کی تقریباً کل آبادی 25 کروڑ میں سے 1 کروڑ لوگ 10500 روپیہ سہ ماہی بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام سے لے رہے ہیں بلحساب 116 روپیہ یومیہ فی صارف وصولی کر رہا ہے وہ الگ بات ہے کہ ان میں سے حقداروں کو بہت کم اور پہلے سے مضبوط لوگوں کو زیادہ طور پر پیسے ملتے ہیں جس کا تذکرہ میں اوپر کر چکا ہوں
یہاں میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں شاید بہت سے قارئین کو بری بھی لگے مگر میں بطور ایک عام پاکستانی شہری سوال کرتا ہوں کہ جب ہمارے ہاں عشر و زکوٰۃ کا محکمہ موجود ہے اس ادارے کا ڈائریکٹر جنرل اور وزیر و مشیر و سارا عملہ موجود ہے تو پھر ہمیں بےنظیر انکم سپورٹ کے نام پر غریبوں کو پیسے دینے کی نوبت کیوں آئی؟
کیا محکمہ عشر و زکوٰۃ غریبوں کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریاتِ زندگی کو دیکھ کر ان کی مدد کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا؟
کیا اس ادارے کے ملازمین کروڑوں روپیہ ماہانہ تنخواہیں نہیں لیتے؟
بفرض وہ محکمہ اگر درست کام نہیں کر رہا اور غرباء تک ان کا حق نہیں پہنچا رہا تو اس محکمے کو درست کرنے کی بجائے ایک اور محکمہ کیوں لایا گیا؟
اب ایک طرف بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا محکمہ اور عملہ ہے تو دوسری طرف عشر و زکوٰۃ کا محمکہ و عملہ کہ جن دونوں کی تنخواہیں سرکاری کھاتے سے جاتی ہیں جبکہ کام دونوں کا ایک ہی غرباء کی مدد کرنا

اسی طرح ہمارے صحت کارڈ پر علاج کی سہولت کا طریقہ کار ہے صحت کارڈ کے حامل افراد اپنی پسند کے ہسپتال سے جو کہ منظور ہوں گورنمنٹ سے، علاج کروانے کے اہل ہیں یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ہر تحصیل میں تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال ہر میونسپل کمیٹی میں رورل ہیلتھ سنٹر اور ہر یونین کونسل میں بی ایچ یو یعنی بیسک ہیلتھ یونٹ موجود ہے تو پھر ہزاروں گورنمنٹ اداروں کے ہوتے ہوئے آپ اپنی ریاست کے شہریوں کو اتنا بھی اعتماد میں نا لے سکے کہ وہ اپنے سرکاری ہسپتالوں سے علاج کروائیں یا کہ سرکاری ہسپتال اس قابل ہی نہیں کہ وہ لوگوں کا علاج کر سکیں؟
حالانکہ ہم جو پیسہ عام پرائیویٹ ہسپتالوں کو دے رہیں اپنی عوام کے علاج کی مد میں کیا وہ پیسہ سرکاری ہسپتالوں پر لگا کر وہاں ہر قسم کی سہولیات مہیا نہیں کی جا سکتیں کہ ریاست پاکستان کا ہر شہری علاج معالجہ اس ہسپتال سے کروائے کہ جہاں کے ڈاکٹرز اور عملہ گورنمنٹ سے لاکھوں روپیہ تنخواہیں لے رہا ہے
ایک طرف گورنمنٹ ان ڈاکٹروں و سٹاف کی تنخواہیں بھی ادا کرے اور دوسری طرف صحت کارڈ پر منتخب شدہ شہریوں کے علاج کی ادائیگی بھی پرائیویٹ ہسپتالوں کو کرے
مجھے اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ کونسی پارٹی نے کونسا منصوبہ شروع کیا مجھے تو بطور عام پاکستانی شہری یہ علم ہے کہ یہ سب اپنی اپنی ووٹیں پکی کرنے کے ڈھونگ ہیں وگرنہ پاکستان میں ہر محکمہ موجود ہے جس کا وزیر بھی ہے مشیر بھی اور ڈائریکٹر جنرل کیساتھ ہر ضلع و تحصیل کی سطح پر بھی عملہ جن کی تنخواہیں ہم عوام کی جیبوں سے ٹیکس نکلوا کر جاتی ہیں
کیا عجیب صورتحال بنا کر رکھ دی ہے کہ اشرافیہ کو ڈبل ڈبل سہولیات بھی دی گئی ہیں اور بطور سربراہ ڈبل ڈبل ادارے بھی
کاش کہ ہماری گورنمنٹ سمجھے لوگوں کو 116 روپیہ یومیہ دینے کی بجائے بلا سود قرض دیئے جائیں اور ان کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ قوم کی سوچ مفت میں مال لے کر کھانے کی بجائے کمانے کا شعور آئے مگر افسوس ایسا نا تو سوچا جاتا ہے نا ہی سوچنے کے قابل چھوڑا گیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں