85

حسین ابن علی، عزم و حوصلے کا سب سے بلند مینار

حسین ابن علی، عزم و حوصلے کا سب سے بلند مینار
وہ فاطمہ کا لعل علی کا بہادر بیٹا اور نانا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لاڈلا نواسا جس کی پیدائش پہ حضور پاک نے خود حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کانوں میں اذان دی اپنا لعاب چٹایا ختنے کیے اور اپنے نواسوں سے سر عام اتنی محبت کی اتنا پیار لٹایا کہ لوح محفوظ پہ قلم ہو گیا، امر ہو گیاایک دفعہ آپ اپنے نواسوں کے لاڈ اٹھا رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا میرے بھی بہت سارے بچے ہیں میں تواس طرح سے ان کے لاڈ نہیں اٹھاتا حضور پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اگر رب تمہارے دل سے محبت چھین لے تو ہم کیا کر سکتے ہیں. نواسے حضور پاک کی پشت پہ چڑھ جاتے تھے اور حضور پاک کے سجدے لمبے ہو جاتے تھے. سبحان اللہ سواری کی شان اور سواروں کی آن دونوں کے ہی صدقے. نو جنوری626عیسوی کو مکہ مکرمہ میں حضرت حسین کی ولادت ہوئی، والد کا نام حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور والدہ ماجدہ جنت کی خواتین کی سردار اور حضور پاک کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ. نانا کی آغوش کے پالے تھے لاڈلے تھے اور لاڈلے نے بہتر تن نانا کے دین کو بچاتے ہوے کربلا کی تپتی ہوی ریت پہ تین دن کی بھوک پیاس کے ساتھ وار دیے. بہتر تن جام شہادت نوش کر گیے اور اسلام رہتی دنیا تک امر ہو گیانواسے نے نانے کے مذہب کو ہمیشہ کے لیے جیوت کر دیاتھا.
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
80 عیسوی میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوت ہونے سے پہلے یزید کو خلیفہ بنا دیا، یزید نے جب حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنی بیعت کرنے کو کہا تو حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یزید کی حکومت کو غیر شرعی، غیر قانونی اور ناجائز سمجھتے تھے. یہ جنگ نیکی اور بدی کی جنگ تھی، جھوٹ اور سچ کی جنگ تھی. یہ جنگ آمریت کے خلاف تھی، یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق عوام کی شاہ کو للکار تھی اور ووٹ کی صحیح قدر و قیمت کو سر، تن من اور بہتر تن کی بازی لگا کے ساری دنیا کو یہ باور کروا کے سرخرو ہو جانے والے شہزادے کی جنگ تھی جو بھوکے پیٹ کے ساتھ جو زخمی وجود کے ساتھ جو اپنے چاروں لعل کربل کی خاک میں خاک کر بیٹھا تھا اور اب سر سجدے میں رکھ کے خود بھی خاک ہونے کو تیار تھا ہاں اس نے کاروبار اچھا کیا تھا اس نے آخرت بنا لی تھی. اس نے امت مسلمہ کو بچا لیا تھا اس نے نانے کے دین کو سر بلند کو دیا تھا. وہ لٹا ہوا قافلہ وہ چند لوگوں کے مد مقابل تیس ہزار سے زائد کا فوجی لشکر وہ بہتر تن جو بھوک اور پیاز بہتے ہوئے ایک ایک اللہ، ایک قرآن اور آخری نبی کے نام پہ تن من وارے بیٹھے تھے وہ بہتر سر جو نیزوں پہ پرو دیے گئے تھے وہ بہتر لاشے جنہیں گھوڑے پہ لاد دیا گیا تھا وہ آل رسول کی باپردہ خواتین جنہیں کوفہ کے بازاروں میں کھلے سر روتی آنکھوں اور دکھی دل کے ساتھ خوب رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بالی سکینہ جو بابا کے جانے کے سوگ میں دنوں کی مہمان تھی اس کے کانوں سے نوچی گءی بالیاں اور منہ پہ پڑنے والے تمانچے اس نمانی چھوٹی سی بچی کے دل پی پہ تازیانہ تھے. اور بیبی زینب کا وہ تاریخی خطبہ جو انھوں نے یزید کے میدان میں دیا سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے. بھٹکی ہوی امت کو راہ دکھانے والے اور نانا کے دین کو بچانے والے حسین ابن علی حسین پہ لاکھوں درود و سلام
سلام
نبی کی آل کو… سلام
علی کے لعل کو سلام

جسے نبی سے پیار تھا
اس پیارے بال کو سلام

اس صاحب جمال کے
اک اک کمال کو سلام

وہ جو نبی کے نام کو بچانے کے لیے چلا
اس صاحب خیال کے خیال کو سلام

جو دین کے لیے بنی
اس ڈھال کو سلام

نبی کی آل کا سلام
علی کے لعل کو سلام

ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
؛drnaureenpunnam@gmail.com

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں