83

تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار شہداء گزرے ہیں کہ یقینا جن کے جسموں سے گرنے والے  خون کے  ہر قطرے نے دین اسلام کو فروغ بخشا ہے ، جن کے جسموں پر لگنے والے  ہر زخم نے اسلام کو حیات سرمدی سے بہرہ ور کیا ہے، وہ عظیم جانثاران،

تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار شہداء گزرے ہیں کہ یقینا جن کے جسموں سے گرنے والے  خون کے  ہر قطرے نے دین اسلام کو فروغ بخشا ہے ، جن کے جسموں پر لگنے والے  ہر زخم نے اسلام کو حیات سرمدی سے بہرہ ور کیا ہے، وہ عظیم جانثاران، جنہوں نے اپنے جسموں پر تیروں کی بارشوں کو برداشت کیا ، جنہوں نے اپنے اعضاء و جوارح اپنے سامنے کٹتے  ہوئے دیکھا ، اور بالآخر جام شہادت نوش کر گئے ، لیکن کبھی اسلام کے پرچم کو جھکنے نہیں دیا، کبھی اسلام کی عظمت پر ایک حرف بھی آنے نہیں دیا، جن کے  دم قدم  سے اسلام روز افزوں پھلتا پھولتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔
لیکن امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام سب سے نمایاں اور عظیم ہے اور آپ کی شہادت تمام شہادتوں  میں افضل و اعلیٰ ہے۔
61 ہجری کو میدان کربلا میں جو الم و اضطراب سے پر واقعہ پیش آیا، پوری  اسلامی تاریخ  اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ چشم فلک نے شہادت کے بے شمار واقعات کو ملاحظہ کیا ہوگا ، اس روئے زمین نے اپنی پشت پر نہ جانے کتنے شہیدوں کے مبارک جسموں  کے بوجھ کو برداشت کیا ہوگا، لیکن شہادت امام حسین  دیکھ کر چشم فلک سے بھی آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا، زمین اہل بیت اطہار کے خون کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے اپنے وجود پر نادم و پشیمان تھی، آہ وہ میدان کربلا! آہ وہ شہادت امام حسین۔
وہ کیسا مقابلہ تھا ! وہ کیسی جنگ تھی! جس میں ایک طرف 22 ہزار کا مسلح لشکر جرار نظر آرہا ہے تو وہیں دوسری طرف وہ نواسہ رسول، جن کے متعلق حضورﷺ نے الحسین منی وانا من الحسین فرمایا ، جنھیں حضور ﷺ نے  اپنے مبارک کندھوں پر بٹھایا ، جنھیں حضور ﷺ نے جنتی جوانوں کے سردار ہونے کی بشارت دی، وہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے خاندان  ،رفقاء اور چند اعزاء کے ساتھ میدان کارزار میں اپنے نانا جان کے امتیوں کی تن تنہا قیادت  فرما رہے  ہیں ، امام حسین کا یہ جوش و جذبہ ، یہ شجاعت و بہادری اور اتنی بڑی فوج کے سامنے اپنے ایمان پر ثابت و مستحکم رہنا ہمارے ذہن و فکر کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے  اور ہم میں  ہر ایک محوحیرت ہو کر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، کہ آخر کیا وجہ تھی ؟ جس نے امام حسین  کو ایک بلند پہاڑ کی طرح ڈٹے رہنے پر ابھارا ، وہ کیا چیز  تھی جس نے آپ کے پاۓ ثبات میں ذرہ برابر بھی جنبش نہیں آنے دی،تو ایک  جواب حاشیہ ذہن پر ابھر کر آتا ہے، ایک چیز  ہمارے فکر کے دریچوں پر دستک دیتی ہوئی نظر آتی ہے ، کہ وہ چیز جذبہ شہادت تھی جس نے امام حسین کو ظلم و جفا کی اس تیز آندھی میں بھی جمائے رکھا ، وہ اللہ اور اس کے رسول کے نام پر مرمٹنے کا جوش و خروش تھا جو امام حسین نے اپنے 6 ماہ کے شیرخوار بچے تک کو رضائے الہی کےلئے نذر کر دیا اور اپنے اہل  وعیال کی فکر نہ کرتے ہوئے بالآخر  خود بھی  شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے ، لیکن آپ نے باطل کی بیعت کو ہرگز گوارا نہ کیا،آپ نے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا، لیکن یزید سے صلح و مشورہ نہ کیا،گویا کہ آپ قیامت تک کے اپنے نانا جان کے امتیوں کو  یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ دنیا میں کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں برداشت کر لینا، دشواریاں  تمہارے راستے کی دیوار بن جائیں صبر کا دامن مت چھوڑنا، لیکن جب مذہب اسلام کی بات آجاۓ، جب ناموس  خدا اور رسول کی بات آجاۓ  تو اپنے مدمقابل کی طاقت و قوت کو مت دیکھنا ، اپنے سامنے کی مسلح افواج کو مت دیکھنا ، اقتدار کی کرسی پر کون ہے؟ اس کی فکر ہرگز مت کرنا، بلکہ جب ایسا نازک وقت آجائے تو سمجھ لینا کہ اب شہادت تمہارا مقدر بن چکی ہے ، اپنی جان و مال اور اولاد ہر چیز کو اللہ کے نام پر قربان کر دینا ، ہنس کر شہادت کو گلے لگا لینا، لیکن کبھی بھی باطل سے سمجھوتا مت کرنا  اور سمجھ لینا کہ اسلام کو تمھارے خون کی ضرورت ہے ،  لہذا مذہب اسلام کو اپنے خون جگر سے سیراب کرو   ۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں امام حسین کے غلاموں میں جگہ نصیب فرماۓ، ہمیں اور پوری مسلم امت کو صبر حسین اور جذبہ حسین سے سرشار فرماۓ ، آمین یا رب العالمین
ترتیب! محمد افتخار غزالی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں