فخر خوشاب، قرآن پاک کے نامور خطاط، حافظ محمد نعیم یاد
خصوصی تحریر: راجہ نور الہی عاطف
حافظ محمد نعیم یادؔ وہ خوش قسمت نوجوان ہیں جنھیں اللہ تعالی ا نے کئی ایک خداد صلاحیتوں سے نوازاہے۔ مڈل تعلیم کے بعد قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ دورانِ تعلیم قرات،نعت اور ملی نغمہ مقابلہ جات میں کئی پوزیشنز حاصل کیں۔ محمد نعیم یاد کے والدین ان پڑھ تھے مگر گھریلو ماحول ایسا تھا کہ جس میں قلم اور کتاب کی حرمت کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے وہ اپنے دئیےگئے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
’’میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹاہوں،بچپن میں بہن یابھائی کوئی رسالہ کہانی لاتے تو میں بھی پڑھے بغیر رہ نہ پاتا،چھٹی جماعت تک میں نے کہیں نہ کہیں سے مانگ کر نسیم حجازی کے سارے ناول پڑھ لیے۔اس کے بعد حفظ کے دوران بھی جووقت گھر میں میسر آتا اس میں مطالعہ کرتا۔عمران سیریز،احمدندیم قاسمی،پریم چند،کرشن چندر ،غلام عباس اوراشفاق احمد جیسے افسانہ نگاروں کو پڑھنے کا موقع ملاتو اَدب سے لگاؤاورگہراہوگیا۔‘‘
’’آؤپیارکے دیپ جلائیں پھر‘‘ محمدنعیم یاد کی پہلی نثری تصنیف ہے جس میں محمد نعیم یاد نے معاشرے کی اصلاح پر مبنی تیس کے قریب موضوعات پہ لکھا۔ ان کی یہ کتاب جہاں ادبی دنیا میں ان کی پہلی انٹری تھی وہیں ادب کی بڑی بڑی شخصیات سے ملنے کا ذریعہ بھی بن گئی انہی شخصیات میں اک نامور شخصیت ’’محمد منشا یاد‘‘ کی تھی۔ 2010ء میں نعیم یاد کی ملاقات منشایاد سے ہوئی اور نعیم یاد کا یہ محبت بھرا تعلق صرف ایک سال پر محیط تھا کہ 2011ء میں منشایاد صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔محبت بھرے اس تعلق کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گافظ محمد نعیم یاد نے اس کے بعداپنے نام کے ساتھ تخلص ’’یاد‘‘ اسی وجہ سے لگانا شروع کیااور آج ادبی حوالے سے ان کی پہچان ’’محمد نعیم یاد ‘‘ ہے۔
2011ء سے 2014 ء کے دوران حافظ محمد نعیم یاد نے ضلع خوشاب سے نوجوان بچوں کے لیے ایک ماہنامہ میگزین ’’مدنظر‘‘ شروع کیا جو تین سال متواتر شائع ہوتا رہا ان کی خواہش تھی کہ علاقے کے بچوں کو ایساپلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں وہ اپنی علمی وادبی پیاس بجھا سکیں۔ 2015ء سے لے کراب تک محمد نعیم یاد کی اردو ،انگریزی اور پنجابی تینوں زبانوں میں پندرہ کتب شائع ہوچکی ہیں ،جو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پنسل اسکچ میں بھی خوب مہارت رکھتے ہیں اور اس حوالے سے بھی ان کی کتاب منظرعام پر آچکی ہے۔ محمد نعیم یاد اب تک ادبی حوالے سے کئی ادبی ایوارڈز بھی اپنے نام کر چکے ہیں۔ ان کا خاصہ ہے کہ مشکل حالات کے باوجود یہ اپنے علم و فن کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔
قرآن انسانی روح کا ترانہ ہے یہ وہ کلام ہے جو روح سننا چاہتی ہے قرآن پیغمبر اسلام ﷺ کے دل پر اترا اب روز ابد تک ہر دل کی آواز ہے۔ قرآن پڑھنا، قرآن سمجھنا، قرآن لکھنا یہ وہ منزلیں جنکے حصول کے لئے مومنین حقہ سرگرداں رہتے ہیں زندگیاں صرف ہوجاتی ہیں لیکن ہم قرآن کی عظمت کا اور اللہ کی طرف سے رشد و ہدایت اور نجات و کامرانی کی اس عظیم نعمت کا حق نہیں ادا کرسکتے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو قرآن سمجھ کر پڑھتے ہیں اور پھر اس سے بڑھ کر اور کرم کیا ہو اتنا ہی خوبصورتی سے قرآن لکھنے کا فن جانتے ہیں۔ حافظ محمد نعیم یاد جنھیں قرآن پاک سے بے مثال محبت ہے پاکستان بھر میں قرانک کیلی گرافی میں شہرت رکھتے ہیں نعیم یادؔ نے خطاطی کے شعبہ میں تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے 75دن کے قلیل عرصہ میں ’’خطِ ثلث‘‘ میں اپنا پہلا قرآنِ مجیدتحریر کر کے قرآنی خطاطی کے شعبے میں ایک ریکارڈ قائم کیا اور یہی نہیں بلکہ اپنے خطاطی کے اس عشق کے تسلسل میں ’’خطِ دیوانی(عثمانی) ‘‘ میں 50دن کے نہایت قلیل عرصہ میں ایک اور قرآنِ پاک تحریرکر کے اسلامی دنیا میں ایک عظیم کارنامہ سرانجام دے دیا۔ انہوں نے خطِ دیوانی (عثمانی) میں عربی الفاظ کو اعراب اور نقطوں سے سجا کر ایک نہایت منفرد کام سر انجام دیا اور پھر اپنے روحانی جذبے سے کام لیتے ہوئے قرآن کریم کے مزید تین نسخہ خطِ نسخ، نستعلیق اور خط رقعہ میں قلیل مدت میں لکھ کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا۔ورلڈ ریکارڈ اس لحاظ سے کہ قرآنی خطاطی میں حافظ محمد نعیم یاد کے مطابق ،ان کا کوئی استاد نہیں ۔اس کے پاس یہ ہنر صرف اور صرف اللہ پاک اور سرکارِ دوعالمؐ کی عنایت ِ خاص سے ہے!! اس طرح اِن عربی خطوط میں 75اور 50دنوں کے قلیل ترین عرصہ میں آج تک قرآنِ پاک ہاتھ سے تحریر کرنے کا ریکارڈ موجود نہیںہے!! خطِ دیوانی (عثمانی) اسلامی خطاطی کا ایک خط ہے جو پندرھویں صدی عیسوی میں سلطنتِ عثمانیہ کے عہد میں وجود میں آیا۔دفتر دیوانی (چیف سیکرٹریٹ) میں سلطان المعظم کے فرامین اسی خط میں لکھے جاتے تھے اسی لیے اس کو ’’خطِ دیوانی‘‘ کہتے ہیں۔خطِ دیوانی ابراہیم حنیف نے ایجاد کیا جو سلطان محمد فاتح کے زمانے میں دفترِ دیوان کا صدر ’’منشی ‘‘ تھا۔ قرآنی خطاطی پر تھوڑی سی تحقیق پر معلوم ہوا کہ حافظ محمد نعیم یادؔ کی قرآنی خطاطی میں عربی کتابت کے تمام اصول تحقیق، تحدیق، تحویق، تخریق، تعریق، تشقیق، تنمیق،توفیق،تدفیق اور تفریق اپنی پوری رعنائی کے ساتھ جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو عالمِ اسلام میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے صرف 270 دِنوں میں قرآن کریم کے پانچ قلمی نسخے مختلف رسم الخطوط جن میں خطِ ثلث، خط دیوانی،خط نسخ، خط نستعلیق اور خطِ رقعہ میں ہاتھ سے لکھنے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہترین مصور بھی ہیں ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے اب تک پانچ سو سے زائد کتب کے( پاک ، بھارت) سرورق تیار کیے۔
اتنی کم عمری میں خوشاب کے شہر جوہرآباد سے تعلق رکھنے والے قابل فخر نوجوان حافظ محمد نعیم یاد نے ایسے ایسے یاد گار فنونِ لطیفہ کے نمونے پیش کر دیے ہیں کہ جو بھی انھیں دیکھتا ہے عش عش کرنے لگتا ہے۔ اللہ پاک نے نعیم یاد کی انگلیوں میں وہ ہنر سم دیا ہے کہ جب چلتی ہیں تو خوبصورتی کے مرقعے ابھرنے لگتے ہیں۔ قدم قدم پررنگوں کا نگار خانہ بن جاتا ہے۔ نگار خانوں سے ایسی ایسی شعاعیں پھوٹتی ہیں کہ جن کے لمس سے جسم و جان میں کیف و انبساط کے شگوفے پھوٹ پڑتے ہیں۔رگ و ریشے میں ترنگیں بھر جاتی ہیںاور جہاں وہ قرآن کریم کی آیات کو اپنے فن کے سانچوں میں اتارتے ہیں وہاں تو ان کا کمال عروج پر پہنچ جاتا ہے ان آیات کے مرقعوں میں ایسی جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے کہ روح جھوم اٹھتی ہے۔ آخر پر اللہ پاک کے حضور دعاہے کہ وہ عظیم بابرکت ذات والاصفات ، فخر خوشاب ،حافظ محمد نعیم یاد کے فن کو اور بھی جلا بخشے۔ آمین