مِکس اچار
آپ نے کبھی انٹرنیشنل ٹریول کیا ہو اور دبئی، قطر، کویت وغیرہ سے ٹرانزٹ فلائٹ لی ہو تو آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جاپان جانے والے مسافر جس گیٹ پر بیٹھے فلائٹ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں وہاں کا ماحول پرسکون ہوتا ہے اور وہ سب چال ڈھال، لباس و انداز، ڈسپلن اور شکل و شباہت سے تقریباً ایک جیسے لگ رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔آپ چلتے چلتے جرمن گیٹ کے سامنے سے گزریں، وہاں بھی یہی حالات ہونگے، ملائشیا، چین، سپین، آسٹریلیا، نیوزیلینڈ سبھی گیٹس کا وزٹ کر لیں کم و بیش حالات ایک سے ہونگے، ایک قومی یکسانیت نظر آئےگی۔۔۔چلتے چلتے جب آپ پاکستانی گیٹ پر پہنچتے ہیں تو یہاں کسی ایک قوم کی بجائے “مکس اچار” دیکھنے کو ملتا ہے۔
اکثریت کے چہرے اُترے ہوے پریشان۔ بچوں کے رونے کی آوازیں۔ آدھے پینٹ شرٹس اور جینز میں ملبوس، کُچھ کھیڑی اور شلوار قمیض میں۔ کہیں نوبیاہتا دلہنیں مہندی والے ہاتھ5 لیئے پیا ملن کو بیقرار تو کہیں جوڑوں کے درد کا شکار آڑہی ترچھی چلتی ہوئی بوڑھی ساسیں۔ کسی کونے میں دبک کر بیٹھے بیرون ملک مزدوری پر آئے جوان، کندھے پہ سافا اور ھاتھوں میں بچوں کے لئے ولایتی ٹافیاں اور ارمان تو کہیں سفاری سوٹ میں ملبوس بزنس کلاس کے مسافر بیوروکریٹس۔ اور سب سے زیادہ ایئرپورٹ کی معذور ٹرالیوں پہ بیٹھے 50 پچاس سالہ انتہائی بوڑھے۔۔۔۔
یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ دیگر اقوام کے ہاں یکساں نظام ہیں۔ فیکٹری پراڈکٹ کی طرح اس پراسیس سے نکل کر سبھی انسان اپنے بنیادی خواص میں یکسانیت اختیار کر لیتے ہیں اور ایک قوم بن جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں آجتک کوئی نظام لاگو ہو ہی نہیں سکا۔ اسلیئے ہم قوم بننے کی بجائے ایک مکس اچار بن چکے ہیں۔ آپ مرتبان میں چمچ لگائیں، آپ کی قسمت ہے، امب نکلے یا لسوڑا۔۔۔۔۔۔
کُچھ پریڈکٹ ایبل نہیں
62